ایودھیا کی سبھا جھوٹ اور ادھرم کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، کیونکہ جس کو اس کے درباری سچائی کی جیت کہتے ہیں، وہ دراصل فریب اور زبردستی کی پیداوارہے۔ عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ درباری بھول جاتے ہیں کہ اسی عدالت نے 6 دسمبر کے ایودھیا—کانڈ کو جرم قرار دیا تھا۔
ویڈیو: ‘ایودھیا: دی ڈارک نائٹ’ کے مصنف اورصحافی دھیریندر کے جھا اور ‘ایودھیا: سٹی آف فیتھ، سٹی آف ڈسکارڈ’ کے مصنف اورصحافی ولیہ سنگھ سے دی وائر کی مدیرہ سیما چشتی کی بات چیت۔
وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
معاملہ جنوبی کنڑ ضلع کا ہے، جہاں آر ایس ایس رہنما کے ایک اسکول کی سالانہ تقریب میں بچوں نے بابری مسجد کے انہدام کو ایک ڈرامے کی صورت میں پیش کیا تھا۔ پدوچیری کی لیفٹنٹ گورنر کرن بیدی بھی اس پروگرام کا حصہ تھیں، جس کے لیے سی پی آئی (ایم)نے ان کے استعفیٰ کی مانگ کی ہے۔
بک ریویو: شیتلا سنگھ کی یہ کتاب ایودھیا تنازعے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے ، فرقہ پرستی کے عروج اور اس کے عروج میں کانگریس کے کردار کو اجاگر کرتی ہے اور6دسمبر1992 کو بابری مسجد کی شہادت کی مکمل تفصیلات اور اڈوانی ، اومابھارتی اینڈ کمپنی کے ہر ’قصور‘ کو ہم تک پہنچادیتی ہے… یہ کتاب پڑھنی چاہئے ، سب کو پڑھنی چاہئے تاکہ وہ رام جنم بھومی بابری مسجد کا ’سچ‘ جان سکیں…
میرا سیاسی نصب العین یہ تھا کہ ملّتِ مسلمۂ ہند اور قومی سیاست کے مابین حائل خلیج کو پُر کیا جائے اور دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔
وہ اوقات کے بہت پابند اور ہمہ وقت ملک و ملت کے بارے سوچتے یا کرتے یا لکھتے رہتے تھے۔ وہ بغیر تنخواہ کے برسوں پوری پابندی سے مشاورت کے دفتر میں صبح سے شام تک روزانہ بیٹھتے تھے اور ہمہ وقت مضامین، بیانات اور خطوط لکھنے میں مصروف رہتے۔ عموما وہ روزانہ 15-10خطوط مختلف قائدین اور وزراء وغیرہ کو لکھا کرتے جن میں ملک و ملت کے مسائل اٹھاتے۔
نئی دہلی:دی وائرکےزیراہتمام ’بابری مسجد انہدام کی کہانی صحافیوں کی زبانی‘کے عنوان سے پریس کلب آف انڈیا میں آج ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں ان صحافیوں نے اپنے تجربات بیان کیے جو 6دسمبر 1992 کو ایودھیا میں جائے واردات پر موجود تھے ۔ جن صحافیوں […]
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے حکومت سے سوال پوچھنے کی ہمت اور بابری مسجد انہدام کے 25 سال پر ونود دوا کا تبصرہ
‘جب میں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ یہ کوئی ایک پل،ایک گھنٹے، ایک دن، یا ایک ہفتے کا کام نہیں تھا۔ یہ تو برسوں سے چلے آ رہے سیاسی عمل کا اختتام تھا، اختتام بھی کیا کہئے کہ یہ عمل تو ابھی جاری ہے، […]