’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘
گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا۔
آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سےرخصت ہوا۔یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔
آج اُردوکے مایہ ناز شاعر فراق گورکھپوری کی سالگرہ ہے۔ دی وائر اُردو کے قارئین کے لیے ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ فراق صاحب کا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے ۔یہ انٹرویوان کے انتقال سے چند روز قبل ان کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔
’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار و متقی ہے۔ بتاؤ تم نے اپنی فضیلت و تفوق کا جواز کہاں سے نکالا۔ گروہ بندی، جتھہ بندی، براداری کی تقسیم اور پھر اس تقسیم میں کم معزز اور زیادہ معزز کے مفروضہ مدارج تم نے بنائے ہیں ایک بھی صحیح نہیں ہے۔
’ہندوستان کا کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جس نے مولانا کے ناولوں کا مطالعہ نہ کیا ہو،یہاں تک کہ بعض علماء جن کو ناول کے نام سے نفرت تھی ،مولانا کی تصنیف کا دیکھنا باعث حسنات جانتے تھے۔‘
میں مکمل جمہوریت کو مانتا ہوں یعنی سیاسی اور اقتصادی دونوں طرح کی آزادی حاصل ہو۔ فی الحال میں سیاسی جمہوریت کے لیے کام کر رہا ہوں۔ لیکن سمجھتا ہوں کہ یہی چیزبڑھ کر اور پھیل کر معاشی جمہوریت بھی بن جائے گی۔
مجاز کی شاعری میں رباب بھی ہے انقلاب بھی کہ جس تہذیب کے میخانے سے ان کا رشتہ تھا وہاں شمشیر بھی ہے ‘ ساغر بھی ۔
مجاہد آزادی اور بیباک صحافی گنیش شنکر ودیارتھی،جنگ آزادی کے دوران نہ صرف انقلابیوں کے ساتھ سرگرم تھے، بلکہ اپنے اخبار ‘پرتاپ ‘میں بھی آزادی کا جذبہ جگا رہے تھے۔ یوم پیدائش کی مناسبت سے ان کامضمون ملاحظہ کیجیے ۔
پی سی جوشی کی فعال قیادت ہی تھی کہ پارٹی اپنی سیاسی سمجھ کو عوام کے درمیان لے جانے میں کامیاب رہی۔ انہوں نےفاشسٹ قدموں کی آہٹ اس وقت سن لی تھی جب ان کے ہی کمیونسٹ دوستوں کے علاوہ دوسرےمکتبہ فکر کے لوگ اس خطرہ کو بہت ہلکے میں لے رہے تھے۔
عبدالقوی دسنوی نے اشاریہ سازی کے فن کو معیار اور وقعت عطا کی،بنگلہ کی شیرینی سے بہت متاثر تھے۔آج دسنوی کے یوم پیدائش پرسر چ انجن گُوگل نےڈوڈل متعارف کرایاہے۔ عبدالقوی دسنوی،آج ہی کے دن1930کو،دسنہ،نالندہ(بہارشریف)صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دسنہ اورآرہ میں ہوئی ،سینٹ زیویرس کالج […]
میرا تجربہ ہے کہ ہندوستانی پولیس سے بڑھ کر کوئی ڈاکو اور جرائم پیشہ نہیں ہوسکتا۔ اردو کے ممتاز شاعر اور ملک کے مایہ ناز قانون داں آنند نرائن ملا آج ہی کے د ن 1901میں رانی کٹرہ ،لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔انہوں نےکانگریس کے امیدوار کے طور پر […]
نصرت کے فرانسیسی سوانح نگار پیئر آلیں بو کا کہنا تھا کہ نصرت کی موسیقی میں شامل صرف سات سر ہی نہیں بولتے بلکہ یہ ہماری روح کی صدا ہے جو بازگشت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ نئی دہلی : دنیا بھر میں اپنے راگ اور الاپ کی وجہ […]
ان کو ‘وہ جو شاعری کا سبب ہوا’کے لیے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا ۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس اعزاز کو اپنے زخم کے کریدے جانے سے تعبیر کیا اور راشٹر پتی بھون سے بلاوے کے بعد بھی وہ یہ اعزاز لینے نہیں گئے۔