مبینہ ادارہ جاتی امتیازی سلوک اور تفریق کے سبب روہت ویمولا اور پائل تڑوی کی خودکشی کے معاملے میں ان کی ماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی پر یو جی سی نے اس معاملے کی جانچ کے لیے 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اگرچہ کمیٹی کے ارکان کے پاس امتیازی سلوک اور ذات پات کی تفریق سے نمٹنے کا کوئی ٹریک ریکارڈ نہیں ہے، اور وہ بی جے پی کے قریبی ہیں۔
دسمبر 1946 میں جب آزاد ہندوستان کے لیےآئین سازی کی مشق شروع ہوئی اور دستور ساز اسمبلی کی تشکیل ہوئی تو کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئےاس مجوزہ دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کیاکہ یہ ‘ایڈلٹ فرنچائز’ یعنی بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب اسمبلی نہیں ہے۔
پیدائشی پہچان کے ذریعے ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کو تعلیم سے ہی ڈر لگنے لگے۔ مگر کچھ لوگ سب جھیلتے ہوئے باہر نکل ہی آتے ہیں اور اب ایسے لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہوتی جا رہی ہے۔وہ باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی اس صلاح پر عمل کرنے لگے ہیں-
روہت ویمولا کایہ خط صرف اداس نہیں کرتا، ایک حوصلہ دیتا ہے۔ اس میں جسم کو ہونے والی تکلیف کو زبان نہیں دی گئی ہے بلکہ اس سچائی کو بیان کیا گیا ہے کہ خواب دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہے۔
2016 میں حیدرآبادیونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولا اور اس سال مئی میں ممبئی کے ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹرپائل تڑوی نے مبینہ طور پر ذات پات کی بنیاد پرامتیازی سلوک کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ دونوں کی ماؤں نے سپریم کورٹ سے یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے امتیازی سلوک کو ختم کئے جانے کی اپیل کی ہے۔
مبینہ طور پر ذات پات کی بنیا دپر امتیازی سلوک کو ذمہ دار بتاتے ہوئے حیدرآباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے روہت ویمولا نے سال 2016 میں اور اسی سال مئی میں ممبئی کے ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹر پائل تڑوی نے خودکشی کر لی تھی۔
منو کے مجسمہ کو ہائی کورٹ کے احاطے سے ہٹانے کی عرضیاں سال 1989 سے زیر التوا ہیں، جن پر 2015 کے بعد سے سماعت نہیں ہوئی ہے۔ سوموار کو اورنگ آباد کی دو خواتین کے مجسمہ پر سیاہی پوتنے کے بعد معاملہ پھر گرما گیا ہے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے امبیڈکر پر سیاست اور میڈیا کوریج پر جے این یو کے پروفیسر وویک کمار اور سینئر جرنلسٹ پورنیما جوشی کے ساتھ ارملیش کی بات چیت۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے مہاراشٹر بند اور بھیما کورے گاؤں تشدد پر ونود دوا کا تبصرہ
تعلیمی ادارے اساتذہ اور طلباء کے نہ پہنچنے کے سبب بند رہے جبکہ والدین نے بھی احتیاطی طورپر بچوں کو اسکول نہیں بھیجا اور دکانیں بند رہیں۔