مئی 2020 میں ایک شخص نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری طلب کی تھی کہ کیا لاک ڈاؤن میں سیلون بند ہونے سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پراتنا ہی اثر پڑا، جتنا کسی عام شہری پرپڑا۔
نیلیش گجانن مراٹھے نام کے ایک شخص نے آر ٹی آئی درخواست دائر کرکے پوچھا تھا کہ کیا ان کے دو موبائل فون کی کوئی غیر قانونی فون ٹیپنگ کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں وزارت داخلہ نے کہا کہ ٹیلی گراف قانون کے تحت اصول کے مطابق فون ٹیپنگ کا اہتمام ہے، لیکن اس کی جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ یہ قانون کے مقصد کو ہی بے معنی کر دےگا۔
بنا درخواست دیے ہی سابق صحافی ادے مہر کر کی سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں تقرری ہوئی تھی۔ انہوں نے مودی ماڈل پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی تقرری کو لےکربھی تنازعہ ہوا تھا۔ حال کے دنوں میں مہر کر نے اپنے کچھ ٹوئٹس میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیوں کو لے کر اپنی حمایت کا اظہار کیاہے۔
خصوصی رپورٹ: پچھلے سال نومبر میں چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنرز کی تقرری ہوئی تھی۔ اس سے متعلق دستاویز بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود سرچ کمیٹی نے بنا شفاف عمل اورمعیار کے ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا۔ وہیں وزیر اعظم پر دو کتاب لکھ چکے صحافی کو بنا درخواست کے انفارمیشن کمشنر بنا دیا گیا۔
لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے بتایا کہ 2015 سے 2020 میں اب تک وزیر اعظم کے غیرملکی سفر پر کل 446.52 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے ذریعے جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں ان میں وزیر اعظم کے ہوائی جہاز کے رکھ رکھاؤپر ہواکل خرچ شامل نہیں ہے ، جو عام طور پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
سال 2014 کے بعد سے یہ چوتھا موقع ہے جب پھر سے چیف انفارمیشن کمشنر کا عہدہ خالی ہوا ہے لیکن ابھی تک کسی کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ کمیشن میں کل پانچ عہدے خالی ہیں جس میں سے چار عہدے نومبر 2018 سے خالی پڑے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دیتے ہیں کہ تقرری کرنا شروع کر دیں۔ ساتھ ہی افسروں کو ہدایت دی کہ وہ دو ہفتے کے اندر اس سرچ کمیٹی کے ممبروں کے نام سرکاری ویب سائٹ پر ڈالیں، جن کو سی آئی سی کے انفارمیشن کمشنر چننے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
اس سے پہلے مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سی آئی سی میں 13000 سے زیادہ ایسے معاملے ہیں، جو ایک سال سے زیادہ وقت سے زیر التوا ہیں۔
انفارمیشن کمشنردویہ پرکاش سنہا نے دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن معاملے میں بد عنوانی کے الزامات کے متعلق متفق ہے اور اطلاع دینے سے انکار کےلئے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 24 کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکز کے ڈی او پی ٹی نے جموں و کشمیر میں آر ٹی آئی کے تحت زیر التوا معاملوں کا تصفیہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے ذریعے کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔ حالانکہ اب جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک کمیٹی بنا دی ہے جس کے بعد ہی اس پر کوئی آخری فیصلہ لیا جا سکےگا۔
غیرسرکاری تنظیم سترک ناگرک سنگٹھن اور سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے ذریعے تیار کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھرکے26انفارمیشن کمیشن میں31مارچ2019تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔
سپریم کورٹ نے اپنے 15 فروری 2019 کے فیصلے میں کہا تھا کہ شفافیت برتتے ہوئے انفارمیشن کمشنر کی تقرری وقت پر کی جانی چاہیے۔ حالانکہ ابھی بھی مرکز اور ریاستوں میں انفارمیشن کمشنر کے کئی عہدے خالی ہیں۔
آر ٹی آئی کارکنوں نے نئے اصولوں کو انفارمیشن کمیشن کی آزادی اور ان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
خصوصی رپورٹ : آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹاکر جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے سےمتعلق آر ٹی آئی کےتحت دی وائر کی طرف سے مانگی گئی جانکاری دینے سے بھی وزارت داخلہ نے منع کر دیاہے۔
آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سالگرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنرکی وقت پر تقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھرکے انفارمیشن کمیشن میں زیرالتوا معاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل انڈیا کے ذریعہ جاری رپورٹ میں انفارمیشن کمیشن میں خالی عہدوں کو آر ٹی آئی کی فعالیت کے لیے رکاوٹ بتایا گیا ہے۔ریاستوں کے معاملے میں اتر پردیش نے 14 سال میں ایک بھی سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی ہے،جبکہ بہار انفارمیشن کمیشن کی اب تک ویب سائٹ بھی نہیں بن پائی ہے۔
وزارت خزانہ کے ڈپارٹمنٹ آف اکانومک افیئرس میں آر ٹی آئی داخل کرکے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کے دوران پہچان کی رازداری بنائے رکھنے کے بارے میں چندہ دینے والوں کے ذریعے لکھے گئے خط اور الیکٹورل بانڈ اسکیم کے ڈرافٹ کی کاپی کے بارے میں جانکاری مانگی گئی تھی۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سی آئی سی نے کئی احکام میں واضح کیا ہے کہ بد عنوانی کے الزامات کی جانکاری دینے سے چھوٹ نہیں ملی ہے لیکن سی بی آئی میں آر ٹی آئی عرضیوں کو دیکھنے والے افسروں کے رخ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ویڈیو: نئی دہلی میں آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کی اجازت نہ دینے کے لیے صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کو میمورنڈم دینے پہنچے کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ راشٹرپتی بھون کے سامنے آر ٹی آئی کارکنوں نے کہا کہ جمہوریت میں اگر احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے تو ہمیں بتا دیا جائے۔
سال 2006 کےممبئی ٹرین بلاسٹ کے ایک مجرم احتشام صدیقی نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ہندوستانی پولیس سروس کے 12 افسروں کے یونین پبلک سروس کمیشن میں جمع فارموں اور دیگر ریکارڈ کی کاپیاں مانگی تھی، جس کو وزارت داخلہ نے خارج کر دیا تھا۔ اب سی آئی سی اس پر آخری فیصلہ لےگی۔
سماجی کارکن انا ہزارے نے کہا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے لیکن اگر ملک کے لوگ آر ٹی آئی قانون کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر اترے تو وہ ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔
مشہور سماجی کارکن ارونا رائے نے کہا کہ اس قانون کو لوک سبھا میں لمبی بحث اور صلاح مشورہ کے بعد پاس کیا گیا تھا اور موجودہ حکومت کی نئی تبدیلی آر ٹی آئی کو بےحد کمزور کرنے والی ہے۔
ویڈیو:مودی حکومت کے ذریعے رائٹ ٹو انفارمیشن(آر ٹی آئی) ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کے خلاف دہلی میں کئی سماجی کارکنوں، وکیل، اپوزیشن پارٹیوں کے ایم پی اور مختلف ریاستوں سے آئے لوگوں نے مظاہرہ کیا۔
رکن پارلیامانوں کو لکھے ایک خط میں سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے کہا،’میں پارلیامنٹ کے ہرایک ممبر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ آر ٹی آئی کو بچائیں اور حکومت کو انفارمیشن کمیشن اور اس اہم حق کو مارنے کی اجازت نہ دیں۔ ‘
سمیر خان نام کے ایک شخص نے وزارت داخلہ سے گئو کشی کے شک میں مارے گئے اور زخمی ہوئے لوگوں کے نام اور حکومتوں کے ذریعے ان کی گھر والوں کو دئے گئے معاوضے کا صوبہ وار اعداد و شمار مانگا تھا۔
سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے کہا کہ یہ ایک مضحکہ خیز تجویز ہے، جن افسروں کو انفارمیشن کمشنر کی ہدایتوں پر عمل کرنا ہوتا ہے، ان کو سی آئی سی کے خلاف شکایتوں کی جانچ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ یہ اس ادارہ کو ختم کرنے کی ایک اور سازش ہے۔
یہ معاملہ گورو دیپ گپتا نامی شخص سے جڑا ہے جنھوں نے آر ٹی آئی قانون کے تحت وزارت داخلہ کی طرف سے 5 ستمبر 1979 کو جاری لک آؤٹ سرکلر کو نکالنے سے جڑے سرکلر زکی کاپیاں مانگی تھی۔
مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کمشنر کی تقرری کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے 14 ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا جس میں سے 13 نوکرشاہ تھے۔ جس پر جسٹس سیکری نے کہا کہ ہم تقرری کو غلط نہیں ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن جب غیرنوکرشاہوں کے نام بھی تھے، تو ان میں سے کسی کی تقرری کیوں نہیں کی گئی۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں حال ہی میں 4 انفارمیشن کمشنر وں کی تقرری کی گئی ہےجوسابق نوکرشاہ ہیں۔ حالانکہ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 12 (5) بتاتی ہے کہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمات، ایڈمنسٹریشن، صحافت یا حکومت کے شعبے سے کی جانی چاہیے۔
صدر جمہوریہ رام ناتھ کووندکو لکھے خط میں سابق سی آئی سی شری دھر آچاریولو نے سی بی آئی اور سی آئی سی کی تقرریوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کی مانگ کی ہے۔
مودی حکومت نے 4 نئے انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی ہے۔ چاروں لوگ ریٹائر نوکر شاہ ہیں۔ ان چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے بعد ابھی بھی سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں چار عہدے خالی ہیں۔
یونین منسٹر جتیندر سنگھ نے لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آرٹی آئی قانون، 2005 کے غلط استعمال کی کوئی جانکاری حکومت ہند کے علم میں نہیں ہے۔ غلط استعمال سے بچنے کے لئے آر ٹی آئی قانون میں پہلے سے ہی اہتمام کیا گیا ہے۔
سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھکر انفارمیشن کمشنر کی تقرری اورآر ٹی آئی قانون میں ترمیم نہیں کرنے کی مانگ کی ہے۔
سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ مرکز اور ریاست کے انفارمیشن کمیشن میں انفارمیشن کمشنر کے عہدوں کا خالی رہنا جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ پاس کرنے کااہم مقصد شفافیت متعین کرنا تھا۔
سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھکر کہا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو حکومت کے ذریعے اس کے خلاف دائر مقدموں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ اکتوبر مہینے میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے وزیر اعظم دفتر کو 2014 سے 2017 کے درمیان مرکزی وزراء کے خلاف ملی بد عنوانی کی شکایتوں، ان پر کی گئی کارروائی اور بیرون ملک سے لائے گئے بلیک منی کے بارے میں جانکاری دینے کا حکم دیا تھا۔
انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر کو خط لکھکر کہا کہ آر بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں کی جانکاری نہیں دینے پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو سخت قدم اٹھانا چاہیے۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے 50 کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کا قرض لینے اور جان بوجھ کر اس کو ادا نہیں کرنے والوں کے نام کے بارے میں اطلاع نہیں مہیا کرانے کو لے کر آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ہے۔
وزارت خارجہ نے دی وائر کی طرف سے دائر آر ٹی آئی کے جواب میں کہا کہ مانگی گئی جانکاری بےحد حساس ہے۔اس سے ہندوستان کی سالمیت کے ساتھ ملک کی حفاظت،پالیسی ، سائنس اور اقتصادی مفادات پر اثر پڑےگا۔
سی آئی سی نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ پی ایم او اس جانکاری کا انکشاف کرے کہ مودی حکومت میں دوسرے ملکوں سے کتنا کالا دھن لایا گیا اور اس کا کتنا حصہ ہندوستانی شہریوں کے بینک کھاتوں میں ڈالا گیا۔