نائیڈو کی پارٹی بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا حصہ ہے، جو ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اب نائیڈو نے کہا ہے کہ لوگوں کے جذبات ذات پرمبنی مردم شماری سے وابستہ ہیں اور ملک میں اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔
مودی حکومت کی جانب سے آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے سے انکار کے بعد ٹی ڈی پی 2018 میں این ڈی اے سے باہر ہو گئی تھی۔ لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے پارٹی این ڈی اے میں لوٹ آئی۔ اب پارٹی سپریمو اور چیف منسٹر چندربابو نائیڈو نے کہا ہے کہ ریاست کو خصوصی درجے سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔
آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ این چندر بابو نائیڈو بدھ کو ضلع نیلور کے کنڈوکور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ پولیس کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد پنڈال میں پہنچ گئی تھی اور آگے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جس سے بھگدڑ کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے سی جےآئی ایس اے بوبڈے کو لکھے خط میں سپریم کورٹ کے جسٹس این وی رمنا پر بدعنوانی اور ٹی ڈی پی رہنما چندر بابو نائیڈو کی جانب سے ان کی سرکار گرانے کی سازش کےالزام لگائے ہیں۔ جگن کا یہ بھی الزام ہے کہ جسٹس رمنا ریاست کی عدلیہ کو متاثر کر رہے ہیں۔
امراوتی کو مقننہ، وشاکھاپٹنم کو عاملہ اور کرنول کو جوڈیشیل راجدھانی بنایا جائےگا۔ سابق وزیراعلیٰ چندربابو نائیڈو کی پارٹی ٹی ڈی پی راجدھانی کو منتقل کرنے کے قدم کی پرزور مخالفت کر رہی ہے۔ آج ٹی ڈی پی کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔
2014 میں آندھرا میں بی جے پی اور ٹی ڈی پی نے ساتھ میں الیکشن لڑا تھا ۔ لیکن آندھرا کو خاص صوبے کا درجہ دینے کے مدعے پر ٹی ڈی پی ،بی جے پی سے الگ ہوگئی۔
کانگریس کے نظریے سے دیکھیں تو اس کو آر جے ڈی کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ 1990 میں اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد اب تک یہ پارٹی بہار میں اپنا مینڈیٹ واپس نہیں حاصل کر پائی ہے۔
کے سی آر کی شاندار واپسی کی ایک وجہ مسلمانوں کا ٹی آر ایس کے حق میں ووٹنگ کرنا ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے ٹی آر ایس کے حق میں ووٹنگ کی ہے۔
گزشتہ 25 سالوں میں پہلی بار ہوگا کہ راجستھان اسمبلی میں بی جے پی کا کوئی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے۔ وسندھرا راجے حکومت میں وزیر یونس خان جن کو ٹونک سے ٹکٹ دیا گیا وہ بھی کانگریس کے سچن پائلٹ سے ہار گئے ہیں۔
آج ہونے والے انتخابات کا نتیجہ 11 دسمبر کو آئے گا۔اس وقت راجستھان میں بی جے پی اور تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی حکومت ہے۔
ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کی 12.7 فیصد ہے اور آئندہ انتخابات میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست کے مسلمان کل 119 سیٹوں میں 30 سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم ووٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام تر سیاسی پارٹیاں اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
تلنگانہ کے انتخابات میں بی جے پی کے کوئی اثر پیدا کر پانے کا امکان کم ہے، لیکن یہ صاف ہے کہ پارٹی کا مقصد موجودہ انتخابی تشہیر کے سہارے ریاست میں اپنا مینڈیٹ بڑھانا ہے۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آندھر پردیش اور مغربی بنگال کی حکومتوں کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس چھپانے کو بہت کچھ ہے، وہی اپنی ریاست میں سی بی آئی کو نہیں آنے دے رہے۔
ذرائع کے مطابق، سی بی آئی کے اندر چل رہے تنازعہ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملے کی وجہ سے ریاستی حکومت کا اعتماد سی بی آئی پر سے ختم ہو گیا ہے۔
کرناٹک کے وزیراعلیٰ کی حلف برداری تقریب میں یکجہتی دکھانے والے اپوزیشن کے رہنماؤں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا وہ 2019 کے عام انتخابات تک متحد رہیںگے؟
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ٹی ڈی پی کے ذریعے مودی سرکار کے خلاف عدم اعتماد اور اروند کیجریوال کے بکرم سنگھ مجیٹھیاسے معافی مانگنے پر ونود دوا کا تبصرہ
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ٹی ڈی پی کے آندھرا پردیش کوخصوصی ریاست کا درجہ دیے جانے کے مطالبہ پر جاری سیاسی اٹھا پٹک پر ونود دوا کا تبصرہ