سپریم کورٹ نے 22اگست کو دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن، کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر اور تمام ملازمین کو بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت گوہاٹی پولیس کی جانب سے درج کیس میں کسی بھی تعزیری کارروائی سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ تین ماہ میں آسام پولیس کی طرف سے ادارے کے خلاف سیڈیشن کے قانون کے تحت درج کیا گیا یہ دوسرا معاملہ ہے۔
آسام پولیس کی طرف سے دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر کو طلب کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی ایف آئی آر کئی دنوں کی آن لائن اور آف لائن کوششوں کے بعد بالآخر بدھ (20 اگست) کو مل سکی، جس میں دی وائر سے وابستہ کئی صحافیوں اور کالم نگاروں کو نامزد کیا گیاہے۔
گوہاٹی کرائم برانچ نے ریاستی پولیس کی جانب سے درج کیے گئے ایک نئے ‘سیڈیشن’ کیس میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور سینئر صحافی کرن تھاپر کو سمن جاری کیا ہے۔ تاہم ،ایف آئی آر کی تاریخ، مبینہ جرم کی جانکاری اور ایف آئی آر کی کوئی کاپی فراہم نہیں کی گئی ہے۔
پریس کلب آف انڈیا اور انڈین ویمن پریس کور نے آسام پولیس کی طرف سے دی وائر اور اس کے صحافیوں کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر پر مایوسی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی بی این ایس کی سخت دفعہ 152 کو ‘پریس کو خاموش کرنے کا ہتھیار’ قرار دیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ معاملے اسی دفعہ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے منگل کو ‘دی وائر’ کے مالکانہ حق والے ٹرسٹ ‘فاؤنڈیشن فار انڈیپنڈنٹ جرنلزم’ کے ارکان اور بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کو بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت آسام پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے سلسلے میں کسی بھی تعزیری کارروائی سے تحفظ فراہم کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس اندو ملہوترا کاایک ویڈیو سامنے آیا ہے، جس میں انہیں یہ دعویٰ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اور جسٹس یو یو للت (موجودہ سی جے آئی) نے سری پدمنابھاسوامی مندر پر قبضہ کرنے کی کیرالہ حکومت کی کوششوں کو ناکام کر دیا تھا۔
ممبئی پریس کلب کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے منعقدہ ‘ریڈ انک ایوارڈز’تقریب میں چیف جسٹس این وی رمنا نے خبروں میں نظریاتی تعصب کی آمیزش کے رجحان کےبارے میں کہا کہ حقائق پر مبنی رپورٹس میں رائے دینے سے گریز کیا جانا چاہیے۔صحافی ججوں کی طرح ہوتے ہیں۔انہیں اپنے نظریے اور عقیدے سے اوپر اٹھ کر کسی سے متاثر ہوئے بغیر صرف حقائق بیان کرنا چاہیے اور ایک حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے۔
سی بی آئی نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس نارائن شکلا کے ساتھ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے سبکدوش جج آئی ایم قدوسی، پرساد ایجوکیشن ٹرسٹ کے بھگوان پرساد یادو اور پلاش یادو، ٹرسٹ اور دو دیگر بھاونا پانڈے اور سدھیر گری کو بھی میڈیکل کالج رشوت گھوٹالہ معاملے میں نامزد کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ اور ہندوستان کے چیف جسٹس کا عہدہ آر ٹی آئی کے تحت پبلک اتھارٹی ہے یا نہیں، اس سوال پر جمعرات کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔
بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی پول کھول دی ۔
پانچ ابواب پر مشتمل 267 صفحات کو محیط اس کتاب کا بنیادی مقصد شاہ بانو کیس سے متعلق ضیاء الرحمان انصاری کے نقطہ نظر کی معروضی وضاحت ہے تاکہ مصنف کے بقول غلط تعبیر ، غلط فہمی اورحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روش کا محاسبہ کیا جا سکے۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ آئین حاشیے پر پڑے لوگوں کے ساتھ اکثریت کے ادراک کی بھی آواز ہے اور یہ مشکل وقت میں ہمیشہ رہنمائی کرتا ہے۔
جسٹس رنجن گگوئی کی مدت 13 مہینے سے تھوڑی زیادہ ہوگی اور 17نومبر 2019کو ریٹائر ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی 5 رکنی آئینی بنچ نے اپنے فیصلے میں مرکزی حکومت کی اسکیم آدھار کو آئینی طور پر قانونی قرار دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ شاہ بانو پر لیے گئے اسٹینڈنے کانگریس کو سیاسی طور پر کافی نقصان پہنچایا اوربی جےپی جیسی سیاسی جماعت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔
1997 میں سپریم کورٹ کے ذریعے منظور ایک تجویز کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کو ہندوستان کے چیف جسٹس کے سامنے اپنی جائیداد کا انکشاف کرنا لازمی کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ حکومت کی اس دلیل سے متفق نہیں ہے کہ آدھار قانون کو لوک سبھا صدر نے منی بل بتانے کا صحیح فیصلہ کیا۔
آئین میں کسی سیٹنگ جج کو اس کے عہدے سے ہٹائے جانے کا عمل بےحد پیچیدہ ہے۔ قانون سازمجلس کے دونوں ایوانوں کے ذریعے منظور شدہ تجویز کی بنیاد پر صدر ہی ان کو ہٹا سکتے ہیں۔
اگر حکومت سفارشات پر کُنڈلی مارکر بیٹھی رہے اور کچھ نہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوتی ہے، تو یہ قانوناً اقتدار کا غلط استعمال ہے۔
جسٹس چیلمیشور نے چیف جسٹس دیپک مشرا کو لکھے ایک خط میں کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے حکومت کے اشارے پر ضلع اور سیشن جج کے خلاف شروع کی گئی تفتیش پر سوال اٹھائے ہیں۔
سی جے آئی دیپک مشرا کی صدارت میں ہوئی بنچ کی تشکیل۔ 17 جنوری کو بنچ اہم معاملوں کی سماعت شروع کرےگی۔
مفادات کے ٹکراؤ کے قانون کے تحت مناسب یہی تھا کہ چیف جسٹس اس رٹ عرضی کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ان کو اس رٹ کے معاملے میں عدالتی ہی نہیں، انتظامی امور سے بھی خود کو الگ کر لینا چاہیے تھا۔ 9 نومبرکوجسٹس چیلامیشور کی بنچ نے […]