خالد جاوید لکھتے ہیں ؛ میلان کنڈیرا کو دائیں بازو یا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کنڈ یرا دنیا کے لیے جو سب سےبڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی رکھتا ہے ؟
معاملہ کوئمبٹور کے سندرپورم علاقے کا ہے، جہاں جمعرات کی دیر رات سماجی مصلح پیریار کےآدم قد مجسمہ کو توڑ پھوڑ کر اس پر بھگوا رنگ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ڈی ایم کے، ایم ڈی ایم کے اور وی سی کے کے کارکنوں نے مظاہرہ کیا اور ملزمین کی گرفتاری کی مانگ کی۔
لوک سبھا چناؤکے بعد مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کو ‘متحد’ کرنے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک نئی اور متحدہ پارٹی کے لیے ایک نئے نام کی ضرورت ہوگی۔ میرا مشورہ ہے کہ اس نئی پارٹی کے نام میں سے ‘کمیونسٹ’ کا لفظ ہٹا دیا جائے۔ اس کے بجائے اسے ‘ڈیموکریٹک سوشلسٹ’ سے منسوب کیا جائے۔ یہ لیفٹ کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
جس سیاست کے پاس کوئی قیمت نہیں ہوتی، اس میں نفرت ہی سب سے بڑی قیمت ہو جاتی ہے۔ سائنٹفک سماجواد کے سرخیل کارل مارکس کی سالگرہ (14 مارچ) بھلےہی کچھ روز بعد ہے، لیکن ان کے تریپورہ کے شکست خوردہ پیروکاروں کے جیت کے جنون سے بھرے […]
تریپورہ کے سبروم شہر میں لینن کے ایک اور مجسمہ کو نقصان پہچایاگیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، وزیر اعظم نریندر مودی نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت دی۔
بی جے پی کارکنان پرساؤتھ تریپورہ کے بیلونیا شہر میں لگے لینن کے مجسمہ کوگرانے کا الزام۔ اس دوران بھارت ماتا کی جئے کے نعرے بھی لگائے گئے۔
آئی پی ایف ٹی کے صدر نے کہا آدیواسیوں کی حمایت کے بغیر بی جے پی کو اکثریت ملنا ممکن نہیں تھا، اس لئے ایوان کا رہنما آدیواسی ہونا چاہئے۔