پانڈے جی کو اس دیش کے ایک وچارک کے روپ میں دیکھاجاتاتھا۔انہیں سننے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے تھے وہ بھی ایک واقعہ ہے۔ان کی تنقید میں جو شفافیت ہے وہی ا ن کی شخصیت کابھی حصہ ہے۔ وہ ہزاری پرساد دویدی اور نامور سنگھ کے بعد تیسرے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے ہندی تنقید کو نظریاتی طورپر مستحکم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔اور ہمیشہ تنقید کی بھاشا کاخیال رکھا۔
مینیجر پانڈے مارکسی نقاد کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ وہ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں پروفیسر رہنے کے علاوہ بریلی کالج اور جودھپور یونیورسٹی میں بھی درس و تدریس سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر رشید امجد حقیقی معنوں میں ’سیلف میڈ‘ انسان تھے۔ اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ایک عطا کرنے والے استاد کی حیثیت سے احترام پانے کا معاملہ ہو یا ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی راہ خود تراش کر نمایاں ترین ہوجانا، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور ’فنافی الادب‘ کاسا جنون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ عجب تماشہ ہے کہ میرتقی میرپرایک معمولی مضمون لکھنے والا ہمارے ہاں ناقد کہلاتاہے لیکن نیوٹن کے نظریہ پرنقد کرنے والا Criticنہیں بن پاتا۔ جبکہ تنقید کا دائرہ سائنسی، سماجی علوم کو بھی محیط ہے۔ حالی اور شبلی کی تنقید کاشجرہ نسب ایک ہے۔مشرقی شعریات کادونوں نے […]