سکھوں کی جدوجہد اور خوشحالی کا استعارہ تھے ڈاکٹر منموہن سنگھ
ڈاکٹر منموین سنگھ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے جس پر ہندوستان کو فخر رہے گا۔
ڈاکٹر منموین سنگھ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے جس پر ہندوستان کو فخر رہے گا۔
کم لوگوں کو علم ہے کہ منموہن سنگھ نے بڑی سریلی آواز پائی تھی، وہ ‘لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول’ بڑی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔ اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔
منموہن سنگھ کم گو، شائستہ مزاج اور نرم خو طبعیت کے مالک تھے اور انہیں بخوبی احساس تھا کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔ نہ انہوں نے کبھی میڈیا سے منہ چھپایا اور نہ ہی بے وجہ کے نعرے اچھالے۔ جب بھی موقع آیا اور ضرورت پڑی، پریس کانفرنس کی اور ہر سوال کا جواب دیا۔
نٹور سنگھ ایک زیرک اور کامیاب سفارت کار تھے، گاندھی خاندان کے بے حد قریبی مانے جاتے تھے، مگر سیاست کسی کی دوست نہیں ہوتی ہے، یہ بس مفادات کی آبیاری کانام ہے۔ کانگریس ان سے دور ہوگئی، تو نٹور سنگھ اور ان کے بیٹے جگت سنگھ بھی خود تمام عمر کے پالے ہوئے نظریہ کو لات مار کر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے، جہاں ان کے نظریہ ساز نہرو کو دن رات گالیاں دی جا رہی ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی جب امارات کے ابوظہبی کے نواح میں ابو موریخاء کے مقام پر ہندوؤں کے سوامی نارائن فرقہ کے مندر کا افتتاح کررہے تھے، تو اسی ملک کے دوسرے سرے پر شارجہ میں کنٹرول لائن کے آر پار جموں و کشمیر سے وابستہ تارکین وطن نے چنار اسپورٹس فیسٹول کا اہتمام کیا ہوا تھا۔