عالمی خبریں

چناروں کے سائے میں شارجہ میں کرکٹ اور کشمیر

وزیر اعظم نریندر مودی جب امارات کے ابوظہبی کے نواح میں ابو موریخاء کے مقام پر ہندوؤں کے سوامی نارائن فرقہ کے مندر کا افتتاح کررہے تھے، تو اسی ملک کے دوسرے سرے پر شارجہ میں کنٹرول لائن کے آر پار جموں و کشمیر سے وابستہ تارکین وطن نے چنار اسپورٹس فیسٹول کا اہتمام کیا ہوا تھا۔

کشمیر کرکٹ ٹیم شارجہ کے کرکٹ میدان پر۔ تصویر/افتخار گیلانی

کشمیر کرکٹ ٹیم شارجہ کے کرکٹ میدان پر۔ تصویر/افتخار گیلانی

ساحل سمندر اور پہاڑو ں کے دامن سے غروب آفتاب کے دلکش نظارے کا لطف اٹھانے کے مواقع تو کئی بار نصیب ہوئے ہیں،مگر ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں جا کر معلوم ہوا کہ ریگستان میں بھی یہ نظارہ کچھ کم محسور کن نہیں ہوتا ہے۔ جب اس سنہری ریت اور صحرا کی یخ بستہ رات میں فلڈ لائٹس کے نیچے کرکٹ کا اسٹیج سجا ہو، تو کھیل کے علاوہ سیاسی ہم آہنگی، رابطوں اور تعامل کا ذریعہ بنے، تو اس کا لطف ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی جب امارات کے ابوظہبی کے نواح میں ابو موریخاء کے مقام پر ہندوؤں کے سوامی نارائن فرقہ کے مندر کا افتتاح کررہے تھے، تو اسی ملک کے دوسرے سرے پر شارجہ میں کنٹرول لائن کے آر پار جموں و کشمیر سے وابستہ تارکین وطن نے چنار اسپورٹس فیسٹول کا اہتمام کیا ہوا تھا۔

اس کرکٹ لیگ کا افتتاح پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمدخان نے اور فائنل میں انعامات کی تقسیم کی صدارت ایک اور سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے کی۔ شارجہ، جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے اعصاب شکن معرکوں کے لیے جانا جاتا ہے، میں اس کھیل نے ہزاروں شائقین کی موجودگی میں جموں و کشمیر کے منقسم حصوں اور خاندانوں کو جغرافیائی اور تاریخ کی بے رحم لکیروں سے پرے ایک غیر جانبدار جگہ پر نہ صرف ملنے کا موقع فراہم کیا، بلکہ ماحولیاتی بیداری اور سفارتی ہم آہنگی کا پیغام بھی دیا۔

اس فیسٹول کا نام بھی کشمیرسے وابستہ بلند قامت اور وسیع درخت چنار کے نام پر رکھا گیا ہے جو اس خوبصورت زمین کی تزئین کی خصوصیت ہے۔ یہ درخت ماحولیاتی ہم آہنگی کی اس وجہ سے بھی علامت ہے، کیونکہ اس کے پتوں کی ہیت کچھ ایسی ہے کہ نباتات میں یہ سب سے زیادہ آکسیجن اور بخارات ریلیز کرتا ہے۔

اگلے زمانے میں کڑی دھوپ میں سفر کرتے ہوئے مسافروں کو اس کی چھاؤں میں ایسی ٹھنڈک ملتی تھی، جیسے آج کے دور میں کئی ایر کنڈیشنڈ مشینوں کو آن کردیا گیا ہو۔ سرینگر میں کشمیر یونیورسٹی کا نسیم باغ کیمپس، جہاں چناروں کی بہتات ہے، کا درجہ حرارت  ہمیشہ باقی شہر سے کئی ڈگری نیچے ہوتا ہے اور ان کے طفیل ٹھنڈی ہوا چلتی رہتی ہے۔

ایک ہزار سے زیادہ تماشائیوں نے صحرا میں چلنے والی تیز ہوا کے درمیان نہ صرف ایک کھیل بلکہ خطے کی بدقسمت تاریخ کا بھی ادراک کیا۔ جہاں سیاست ان خطوں کو الگ کرنے اورمنقسم کرنے پر مصر ہے، وہیں کھیل نے ان کو متحد کرنے کا کام کیا۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ اس لیگ کے میچز سری نگر،مظفر آباد، بارہمولہ،راولاکوٹ، اننت ناگ یا سوپور میں منعقد ہوتے، مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ سمند پار ایک غیر جانبدار جگہ پر بھی کھلاڑیوں کو کھیلنے اور شائقین کو اس کا لطف لینے کا موقع فراہم ہوا۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ اسپورٹس فیسٹول متحدہ عرب امارات کی قیادت کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ محمد بن زید النہیان اور شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کی سفار تکاری  مفاہمت کے فلسفہ پر مرکوز ہے اور اس سلسلے میں وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بھی مفاہمت چاہتے ہیں، جس کا راستہ کشمیر سے ہو کر جاتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ کے اتارچڑھاؤ کرکٹ سفارت کاری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جنگوں کو ٹالنے سے لے کر امن مذاکرات شروع کرنے تک، ان دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ مقابلے بسا اوقات کشیدگی کو کم کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے کا ایک اہم  ذریعہ رہے ہیں۔

چاہے وہ پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق کا  1987میں جے پور میں ہونے والے میچ کو دیکھنے کے لیے غیر متوقع دورہ ہو یا ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا لاہور کا تاریخی بس سفر، جس کا اختتام لاہور کے اعلامیہ پر ہوا، یہ دونوں دورے کرکٹ کے مرہون منت ہیں۔

فروری 1987 کو ہندوستان نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں ‘آپریشن براس ٹیکس’ مغربی ریاست راجستھان کے صحراؤں میں، سرحد سے صرف چند سو کلومیٹر دور منعقد کی تھیں، جس کے جواب میں  پاکستان نے بھی اپنی آرمرڈ ڈویژن کو سرحدوں پر منتقل کر دیاتھا۔ امریکہ ابھی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کاوشوں کر بروئے کار لینے پر غور کر رہا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کا ایک طیارہ نئی دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر اترا۔

اس میں پاکستانی صدر محمد ضیاء الحق سوار تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ جے پور میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ٹیسٹ میچ دیکھنے آئے ہیں۔ اب پروٹوکول کے مطابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ان کو خیر مقدم کرنے کے لیے ایر پورٹ آنا پڑا۔

بعد میں راجیو گاندھی کے معروف مشیر بہرا مینن نے 2015 میں لکھا کہ ضیاء الحق نے ایر پورٹ پر ہی خبر دار کیا کہ پاکستان کے پاس معتبر جوہری ہتھیارموجود ہے، اور وہ اس کو استعمال کرنے کافیصلہ کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائے گا، اگر اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

دونوں ممالک نے سرحدوں سے 80000 فوجیوں کو واپس بلانے پر اتفاق کرکے بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اسی طرح مئی 1998 میں، جوہری تجربات کے انعقاد پر جنوبی ایشیائی حریفوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد، اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کرکٹ ٹیم کو ہندوستان جانے کی اجازت دی۔

یہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے دورے کا محرک بنا۔ دونوں ممالک نے لاہور اعلامیہ پر دستخط کیے جس میں کشمیر کے علاوہ جوہری اور روایتی فوجی شعبوں میں اعتماد سازی کے اقدامات کے معاہدے شامل تھے۔2005 میں بھی پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کرکٹ میچ دیکھنے ہندوستان آئے۔ اس سفر کے نتیجے میں ان کی ہندوستان نے نئے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اس میں  جموں و کشمیر کے مسئلے کا غیر روایتی حل تلاش کرنے اور باہمی اعتماد کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانے کا وعدہ کیا گیا۔ 2011 میں بھی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران، وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو صوبہ پنجاب کے موہالی میں اپنے ساتھ میچ دیکھنے کی دعوت دی۔

اس سے تعلقات میں نسبتاً بہتری آئی، جو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد نچلی سطح پر آگئے تھے۔

سفارتی آلے کے طور کرکٹ کے استعمال کی تاریخ تو ویسے 1952 سے ہی شروع ہوئی۔ تقسیم کے فسادات اور کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کھیل سے عوام کے درمیان رابطہ بحال ہو جائے گا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم 1952 میں ایک ٹیسٹ میچ کی سیریز کھیلنے کے لیے ہندوستان آئی تھی، جس میں کچھ ایسے کھلاڑی شامل تھے جو غیر منقسم ہندوستان کے لیے کھیل چکے تھے۔اس کے جواب میں 1955 میں جب ہندوستانی ٹیم پاکستان پہنچی تو تقریباً 10000  شائقین نے ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے ہندوستان سے لاہور کا سفر کیا۔ جو تماشائی امرتسر میں رہتے تھے انہیں ہر روز میچ کے اختتام کے بعد واہگہ بارڈر کے ذریعے واپس گھر جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کرکٹ، دیگر کھیلوں کے برعکس، سماجی رابطوں کو بحال کرنے کے لیے ایک فطری ذریعہ ہے۔  انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ اسپورٹ: فرام اینشینٹ ٹائمز ٹو پریزنٹ میں، مصنفین ڈیوڈ لیونسن اور کیرن کرسٹینسن دلیل دیتے ہیں کہ ٹیسٹ میچ کا دورانیہ چونکہ پانچ دنوں کا ہوتا ہے، اس لیے تماشائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ میل جول بڑھانے کے لیے وقت فراہم کرتا ہے۔ باؤنڈری لائن پر آؤٹ فیلڈ کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان بھی اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

اس کھیل کا ڈھانچہ ہی ایسا ہے کہ اس میں اعصاب شکن جوش و خروش کے ادوار کے ساتھ ساتھ بوریت کے وقفے بھی آتے ہیں۔جس میں تماشائی ایک دوسرے سے روبرو کرتے ہیں اور بات چیت کرتے ہیں۔

برسٹل یونیورسٹی میں اکیڈمک ایملی کرک کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دو مواقع پر پاکستانی رہنماؤں نے کرکٹ میچوں کو اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے انعقاد کے لیے استعمال کیا، جبکہ اس کے برعکس ہندوستان نے کرکٹ کو سفارتی پابندی کے اور مخالف کو سزا دینے کے بطور استعمال کیا ہے – اسکلالر ورون ساہنی کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے اکثر دو طرفہ میچوں کی اجازت نہ دے کر کرکٹ کو ‘سیکورٹائز’ کیا ہے۔ جس کا مظاہرہ حال ہی میں ایشیاء کپ اور ورلڈ کپ نے دوران بھی ہوا۔ خیر سگالی یا اعتماد سازی کی بحالی کا ایک بہترین موقع گنوا دیا گیا۔

شارجہ میں فاتح کشمیر کرکٹ ٹیم۔ تصویر/افتخار گیلانی

شارجہ میں فاتح کشمیر کرکٹ ٹیم۔ تصویر/افتخار گیلانی

 خیر شارجہ کے اسٹیڈیم میں چنار اسپورٹس فیسٹیول کے چھٹے ایڈیشن کے فائنل میچ میں افضال بسیرا نے راجگان کرکٹ کلب کو شکست دی۔ اس کے  اختتام کی تقریب میں صحافی شہزاد راٹھور کے تحریر کردہ اور خرم بٹ کے گائے ترانے، ‘چناروں کے دیس سے اٹھی آواز ہے،’نے علیحدگی کے کرب اور اتحاد کی خواہش کا اظہارکیا۔

دیگر مہمانوں میں راجہ ر فیصل راٹھور اور رکن اسمبلی حسن ابراہیم بھی شامل تھے۔راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ رات کے وقت ریگستان کی سرد فضا میں مظفر آباد اور سرینگر کی سرد ہواؤں کی یاد تازہ ہوگئی۔ماضی کو کریدتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اور ان کی قیادت میں ان کی کرکٹ ٹیم مظفرآباد میں چمپئین بنی تھی۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ منقسم جموں و کشمیر کی ٹیموں کو اگر کرکٹ کھلنے کی اجازت دی جائے، تو تناؤ کی صورتحال ختم ہوسکتی ہے۔ انہوں نے خواہش  ظاہر کی کہ سری نگر مظفرآباد کی کرکٹ ٹیموں کا میچ ہو۔ بارمولا کے کھلاڑی راولا کوٹ سے مقابلہ کریں، شوپیاں کا ٹیلنٹ پونچھ سے میدان کرکٹ میں آمنے سامنے آئے۔

اس کرکٹ لیگ کی مناسبت سے متحدہ عرب امارات کے کرکٹ میدانوں کے اطراف درخت لگائے گئے۔ چئیرمین چنار اسپورٹس فیسٹول راجہ اسد خالد نے کہا کہ حال ہی میں متحدہ عرب کی ریاست دبئی میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس ہوئی جس کا مقصد دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا تھا اس لیے متحدہ عرب امارات کے ویژن کے مطابق انہوں نے بھی’چنار بچاؤ، درخت لگاؤ’ مہم کی شروع کی ہے۔

واضح رہے کہ خطہ کشمیر میں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوب ایشیا کو شدید خطرات  لاحق ہیں۔یہ گلیشیر پورے دریائے سندھ کے تاس کو پانی فراہم کرکے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ زرعی پیداوار اور فوڈ اسکیورٹی کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادار کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کے سوال پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اشتراک کی اشد ضروت  ہے، کیونکہ  پچھلے دو عشروں سے کشمیر کے سب سے بڑے ’کلاہوئی گلیشیر‘ کی ناک ٹاپ22میٹر سے زائد پگھل چکی ہے۔

یہ اعداد و شما2007ء کے ہیں۔ اس کے بعد تو مزید تباہی آچکی ہے۔ اس کے اطراف کے چھوٹے گلیشیر تو کب کے ختم ہوچکے ہیں۔ ہمالیہ خطے کے 51ہزار گلیشیر دنیا کے چاربڑے دریاوٰں سندھ، گنگا، میکانگ اور برہم پترا کے لیے منبع کا کام کرتے ہیں۔ تقریباً تین ارب افراد کی زندگی ان کے پانیوں کی مرہون منت ہے۔ایک ہندوستانی سائنسداں ایم این کول کے بقول ان گلیشیروں میں 6500 ہندوستان میں اور پھر ان میں 3163کشمیر اور لداخ خطے میں ہیں۔

جب وزیر اعظم مودی مندر کا افتتاح کر رہے تھے، تو اس کے پجاری برہماویہاری سوامی کا کہنا تھاکہ مندر کے لیے زمین کا تحفہ دینے کی وجہ سے عرب امارات کے حکمرانوں نے سخاوت اور دریا دلی میں نام پیدا کر دیا ہے، جس کا اثر عالمگیر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ہزاروں سال بعد بھی متحدہ عرب امارات کے موجودہ حکمرانوں کو اس ایک کارنامہ کی وجہ سے احترام سے یاد کیا جائیگا۔

کئی سو سال قبل مغل فرمانروا اورنگ زیب نے بھی کئی مندروں کو جاگیریں عطا کی تھیں۔ مگر ان کا نام لینا بھی آج کل جر م کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کے نام کی سڑک کا نام بھی نئی دہلی میں تبدیل کردیاگیا ہے۔

پھر بھی اگر اس خیر سگالی کو متحدہ امارات کے حکمران ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کو یہ باور کروانے کے لیے استعمال کریں کہ ایک کمزور اور بدقسمت کشمیری قوم کو تھوڑی بہت راحت دے کر اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو شروع کرکے منطقی انجام تک پہنچا دیں، تو یہ قدم اور ان کا نام تاریخ میں یقیناً سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

خیر کرکٹ کے اس فیسٹول نے واقعی یاد دہانی کرائی کہ گو کہ جدید کرکٹ کو کارپوریٹ اور انتہا پسند قوم پرستی نے آلودہ کردیا ہے، مگر یہ کھیل ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ رکھتا ہے، اور اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے، تو ابھی بھی تقسیم کرنے کے بجائے جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔