یہ معاملہ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے اگست 2020 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک صارف کی پروفائل پکچر شیئر کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا اپنی پوتی کی تصویر لگاکر قابل اعتراض زبان کا استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد صارف نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
انٹرویو: چار سال پرانےایک ٹوئٹ کے لیے دہلی پولیس کے ذریعے حراست میں لیے جانے کے بعد آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نےتقریباً تین ہفتے جیل میں گزارے۔ اس دوران یوپی پولیس نے ان کے خلاف کئی مقدمات درج کیے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے انہیں یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی کہ ان کی مسلسل حراست کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے ساتھ علی شان جعفری کی بات چیت۔
گزشتہ دنوں یوپی میں عمل میں آئی دو گرفتاریوں سے واضح ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اب باقی نہیں رہی۔ یا پھر جیسا کہ عیدی امین نے ایک بار کہا تھا کہ ، بولنے کی آزادی توہے، لیکن ہم بولنے کے بعد کی آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں مسلسل حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت نے انہیں بدھ کو ہی رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف اتر پردیش میں درج تمام معاملے دہلی پولیس کو تحقیقات کے لیے سونپ دیے اور یوپی حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایس آئی ٹی کو بھی ختم کرنے کی ہدایت دی۔
کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے 72 سابق نوکر شاہوں کے ایک گروپ نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کو خط لکھا ہے، جس میں فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو مسلسل حراست میں رکھنے اور ان کی شخصی آزادی کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے سامنے مساوات کے آئینی اصول کے پیروکار کے طور پر نوپور شرما اور محمد زبیر کے درمیان امتیازی سلوک کا مشاہدہ کرناانتہائی پریشان کن ہے۔
ویڈیو: 2018 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں ‘مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے الزام میں آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کوگرفتار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں وہ ایک ساتھ چھ مقدمات کا سامنا کر ر ہے ہیں۔ اس معاملے پر سینئر صحافی شرت پردھان کا نظریہ۔
دہلی پولیس کی جانب سے آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کے خلاف درج چار سال پرانے ٹوئٹ کیس میں ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ صحت مند جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی تنقید کے لیے آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 295 اے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں دو اور سیتا پور، لکھیم پور کھیری، غازی آباد اور مظفر نگر ضلع میں ایک ایک کیس درج کیا گیا ہے۔ اتر پردیش پولیس نے ان معاملات کی تحقیقات کے لیے 12 جولائی کو ایک ایس آئی ٹی بھی تشکیل دی ہے۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے بعددہلی پولیس نے کہا تھا کہ اس ویب سائٹ کے ذریعے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کی مبینہ خلاف ورزی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ادارے پر بیرون ملک سے چندہ حاصل کرنے کا الزام تھا، جس کی اس نے تردید کی تھی۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ایک اور معاملے میں زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کو گرفتار کیاہے۔
فیکٹ چیکر محمد زبیر کی گرفتاری،ان کے خلاف درج کیے گئے مقدمے اور ان کی حراست کے سلسلے میں نظر آنے والی واضح خامیوں پرسپریم کورٹ کے ایک سابق جج، ایک ہائی کورٹ کے جج اور وکیلوں نے سوال اٹھائے ہیں۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو پولیس نے پانچ دنوں تک حراست میں لے کر پوچھ گچھ کرنے کی مدت پوری کرنے کے بعد سنیچر کو دہلی کی ایک عدالت میں پیش کیا اور انہیں عدالتی حراست میں بھیجنے کی گزارش کی۔ پولیس نےکہا کہ آگےبھی پوچھ گچھ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ویڈیو: پچھلے چند دنوں میں دو واقعات رونما ہوئے۔گزشتہ 28 جون کو راجستھان کے ادے پورمیں دو افراد نے تیز دھار دار ہتھیارسےکنہیا لال نامی ایک درزی کو قتل کر دیا اور اس واقعے کاویڈیویہ کہتے ہوئے جاری کیا کہ وہ ‘اسلام کی توہین’ کا بدلہ لے رہے ہیں۔ وہیں، آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو مذہبی جذبات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان واقعات کی پڑتال کرتی دی وائر کی رپورٹ۔
دہلی پولیس نے آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کے 2018 میں کیے گئے جس ٹوئٹ کو ان کی گرفتاری کی وجہ بتایا ہے ، اس کے خلاف @balajikijaiin نامی ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے شکایت کی گئی تھی، پولیس نے عدالت میں کہا تھا کہ یہ کوئی گمنام اکاؤنٹ نہیں بلکہ ‘مخبر’ ہے۔
دہلی کی ایک عدالت نے 2018 کے ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیرسے پوچھ گچھ کے لیے حراست کی مدت میں چار دن کی توسیع کر تے ہوئے کہا کہ انہوں نے تحقیقات میں ‘تعاون’ نہیں کیا اور ان کے پاس سے ڈیوائس بر آمدکرنے کے لیے انہیں بنگلورو لے جایا جانا ہے۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے جس ٹوئٹ کو ‘مذہبی جذبات کو بھڑکانے والا بتانے کا دعویٰ کرتے ہوئےان کوگرفتار کیاگیا ہے، وہ معروف ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی کامیڈی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا ایک سین ہے، جس میں ‘ہنی مون ہوٹل’ کے حرفوں میں پھیر بدل کرتے ہوئے ‘ہنومان ہوٹل’ لکھا گیا تھا’۔
حکومت کے کارندے نصف صدی قبل کی ایمرجنسی اور اس کی زیادتیوں پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن اہل وطن کسی اعلانیہ ایمرجنسی کے بغیر اس وقت سے زیادہ بدتر حالات جی رہے ہیں۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی جانب سے آن لائن بحث کے دوران ایک نابالغ بچی کی بلر کی ہوئی تصویر پوسٹ کرنے پر نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی شکایت پر ان کے خلاف آئی ٹی ایکٹ اور پاکسو ایکٹ کی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے ٹوئٹر پر ایک شخص کے ساتھ ہوئی بحث میں اس کی نابالغ بیٹی کی بلر کی ہوئی تصویر پوسٹ کی تھی۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی شکایت پر ان کے خلاف آئی ٹی ایکٹ اور پاکسو ایکٹ کی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔