پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ملزم بنائے گئے نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر اور پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی کی نظربندی بھی تین مہینے بڑھا دی گئی ہے۔ جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرح انہوں نے بھی نظربندی میں نو مہینے بتائے ہیں۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ملک کی خودمختاریت، سالمیت اور سلامتی کے تحفظ کے لیے انٹرنیٹ کی رفتارکو کم کرنے کی بہت مناسب پابندی لگائی گئی ہے۔
حکام نے کہا کہ جن لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے، ان میں کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچرنگ فیڈریشن اور کشمیر اکانومک الائنس کے چیف محمد یاسین خان کا نام بھی شامل ہے۔
جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو رہا کئے جانے کے بجائے انہیں ان کے گھر میں منتقل کرنے کے آرڈر کی سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مخالفت کرتے ہوئے ان کی رہائی کی مانگ کی ہے۔
جموں کشمیر انتطامیہ کے ذریعے سرینگر کی سینٹرل جیل میں پی ایس اے کے تحت بند 14 قیدیوں کی رہائی سمیت کل 31 قیدیوں پر لگا پی ایس اے ہٹایا گیا ہے۔
گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے عمر عبداللہ نے 232 دن حراست میں گزارے۔ اس سے پہلے فاروق عبداللہ کو 13 مارچ کو رہا کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو ابھی بھی پبلک […]
آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹاتے ہوئے جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے گزشتہ سال پانچ اگست کے فیصلے کےبعد سے ہی سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ حراست میں ہیں۔
مرکزی حکومت کے ذریعے جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور اس کو دو ریاستوں میں باٹنے کے فیصلے کے بعد سے ہی پچھلے سات مہینے سے زیادہ وقت سے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ حراست میں تھے۔
مرکزی وزیرجی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ جموں وکشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے بعد 396 لوگوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
گزشتہ 5 مارچ کو سات مہینے کے بعد جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ سے پابندی ہٹائی گئی ہے۔ ایک طبقے کا ماننا تھا کہ یہ پابندی امن امان کی بحالی کے لئے ضروری تھی ، حالانکہ مقامی لوگوں کے مطابق یہ پابندی تفریح یا سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ عوام کے جاننے اور بولنے پرتھی۔
23 جنوری کی شنوائی کے دوران آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو رد کئے جانے کے جواز کو چیلنج دینی والی عرضیوں کو پیش کرنے والے وکیلوں نے مانگ کی تھی کہ جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کو چیلنج دینے والے معاملوں کو سات ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیجا جائے کیونکہ آرٹیکل 370 سے جڑے پچھلے دو فیصلے پانچ ججوں کی بنچ کے ذریعے دیے گئے تھے اور دونوں میں تنازعہ تھا۔
پولیس نے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 اے کے تحت بھی معاملہ درج کیا ہے، جس کو سپریم کورٹ کے ذریعے رد کیا جا چکا ہے۔
شاہ فیصل کو گزشتہ سال 14 اگست میں دہلی ایئر پورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیے جانے کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ پچھلے سال اگست میں ریاست کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر نظربند ہیں۔
جموں وکشمیر کے سابق ایم ایل اے اور سینئرسی پی ایم رہنما یوسف تاریگامی نے ریاست کے بڑے رہنماؤں کی حراست کو لےکر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر جموں وکشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو حکومت وہاں الیکشن کیوں نہیں کراتی۔
آج جب شنوائی شروع ہوئی تو تین ججوں کی بنچ میں شامل جسٹس موہن شانتاناگودر نے خود کو اس کی شنوائی سے الگ کر لیا۔ بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے پی ایس اے کے تحت عمر عبداللہ کی حراست کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے خلاف پی ایس اے لگانے کے لئے جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں ان کی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہیں، خطرناک سازش رچنے کی اہلیت کی وجہ سے سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو’ڈیڈی گرل‘اور’کوٹا رانی‘کہا گیاہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت نظربند کرنے کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے ان کی فوراً رہائی کی مانگ کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں پر بھی اس قانون کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس کے سنیئر رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے سرتاج مدنی شامل ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نظربند ہیں۔
ہندوستانی حکومت کے ذریعے منعقد رائے سینا ڈائیلاگ میں حصہ لینے کے بعد واپس لوٹ کر جنوبی اوروسط ایشیا کی اسسٹنٹ سکریٹری ایلس ویلس نے شہریت ترمیم قانون کو لےکرملک گیر احتجاج پر کہا کہ ایک مستحکم جمہوری تجزیہ ہونا چاہیے چاہے وہ سڑکوں پر ہو، چاہے سیاسی اپوزیشن ، میڈیا یا عدالتوں کے ذریعے ہو۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، موبائل فون پر 2جی اسپیڈ کے ساتھ انٹرنیٹ سہولت 25 جنوری سے شروع ہو جائےگی۔ سوشل میڈیا کی سائٹ تک وادی کے لوگوں کی رسائی نہیں ہوگی اور طے شدہ ویب سائٹس تک ہی ان کی رسائی ہو سکےگی۔
پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، انٹرنیٹ کی بحالی اور گھاٹی میں لوگوں کا ڈر دور کرنے سے حالات نارمل ہوں گے، نہ کہ وزراء کے فوٹو کھنچوانے سے۔
جموں کشمیر انتظامیہ کے افسروں نے بتایا کہ یونین ٹریٹری میں سبھی مقامی پری پیڈ موبائل فون پر کال کرنے اور ایس ایم ایس بھیجنے کی سہولت بحال کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر سے جموں علاقے کے سبھی دس ضلعوں اور شمالی کشمیر کے دو ضلعوں کپواڑہ اور باندی پورا میں فکس لائن انٹرنیٹ کمیونی کیشن سروس مہیا کرنے کو کہا گیا ہے۔
امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان کن ڈیبی ڈنگیل نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں غیرمنصفانہ طریقے سے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تک نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتہ اپنے ایک بےحد اہم فیصلے میں جموں و کشمیر انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر پابندی سے متعلق تمام احکام پر غور کرے۔ یہ پابندی گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے لگائی گئی تھی۔
جن 26 لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے ان میں سے کچھ یونین ٹریٹری سے باہر اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بند ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا بھی شامل ہیں، جنہیں اتر پردیش کی مرادآباد سینٹرل جیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کہ انٹرنیٹ کا حق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کا کوئی بھی حکم جوڈیشیل جانچ کے دائرے میں ہوگا۔
گزشتہ اگست میں مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور یونین ٹریٹری بنا کر دو حصوں میں باٹنے کے فیصلے کے پہلے سے 3 وزیراعلیٰ سمیت کئی مقامی رہنما حراست میں ہیں۔
حالانکہ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کو ایس ایس جی سکیورٹی ملی ہوئی ہے، لہذا ان کو کہیں بھی جانے سے پہلے پولیس کی منظوری لینی ہوتی ہے۔
سالانہ ہیومن رائٹس رپورٹ کہتی ہے کہ 662 لوگوں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ہیبیس کارپس عرضی داخل کی اور اپنے خلاف لگائے گئے پی ایس اے کو رد کرنے کی مانگ کی۔
گزشتہ سال 5 اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد سے انتظامیہ نے کمیونی کیشن کی سبھی لائنوں –لینڈ لائن ٹیلی فون خدمات، موبائل فون خدمات اور انٹر نیٹ خدمات کو بند کر دیا تھا۔
جموں و کشمیر کےحکام نے بتایا کہ رہا کئے گئے پانچوں رہنما نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ہیں، جنہیں احتیاطاً حراست میں رکھا گیا تھا۔ 5 اگست سے سابقہ ریاست کےتین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مین اسٹریم اور علیحدگی پسند خیمے کے سینکڑوں رہنماؤں کو احتیاطاً حراست میں رکھا گیاہے۔
ہندنژاد-امریکی رکن پارلیامان پرمیلا جئے پال نے امریکی پارلیامنٹ میں جموں و کشمیر پر ایک تجویز پیش کرتے ہوئے ہندوستان سے وہاں لگائی گئی مواصلات پر پابندیوں کو جلد سے جلد ہٹانے اور سبھی باشندوں کی مذہبی آزادی محفوظ رکھے جانے کی اپیل کی۔
فاروق عبداللہ نے یہ خط تھرور کی طرف سے اکتوبر میں لکھے گئے خط کے جواب میں لکھا ہے۔ عبداللہ نے تھرور کا شکریہ اد اکرتے ہوئے کہا کہ مجھے مجسٹریٹ کی طرف سے خط تاخیر سے ملا۔
پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن پی ڈی پی کے راجیہ سبھا ممبروں نے کشمیر میں صورت حال معمول پر لانے کی مانگ کرتے ہوئے خصوصی درجہ ختم کئے جانے کی مخالفت کی۔ پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی 5 اگست سے نظربند ہیں۔
کانگریس ، ڈی ایم کے اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبد اللہ کی نظربندی کی مخالفت کی اورلوک سبھا اسپیکر سے ان کی فوری رہائی کا حکم دینے کی درخواست کی۔
پی ڈی پی چیف نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے سجاد لون، پی ڈی پی رہنما وحید پارہ اور سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کو سرکاری ٹھکانوں میں شفٹ کرنے کے دورا ن ان سے بدسلوکی کی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہےکہ سجاد لون کو ڈرایا دھمکایا گیا اور انہیں برہنہ ہونے کے لیے کہا گیا۔
گزشتہ اکتوبر ماہ میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پانچ اگست سے اب تک 9 سے 17 سال کے 144 نابالغوں کو حراست میں لیا گیا۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے ہٹانے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری ریاستوں میں بانٹنے کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہیں ان خواتین کو سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت حراست میں لےکر سرینگر سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لئے جانے سے پہلے حراست میں لیا گیاتھا۔