امریکہ واقع ڈیجیٹل میڈیا کمپنی ہف پوسٹ کے ہندوستانی ڈیجیٹل ایڈیشن ہف پوسٹ انڈیا نے چھ سال کے بعد منگل کو ہندوستان میں اپنا کام بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان میں کام کر رہے 12صحافیوں کی نوکری بھی چلی گئی۔
آن لائن نیوز پورٹلوں اورکنٹینٹ پرووائیڈرز کو وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت لانے کے لیےمرکزی حکومت نے ایک حکم جاری کیا ہے۔دلچسپ یہ ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پردستیاب خبروں اورعصری موضوعات سے متعلق مواد کو ‘پریس’کے ذیلی زمرہ کے تحت نہ رکھ کر ‘فلم’کے ذیلی زمرہ میں رکھا گیا ہے۔
پریس اور میگزین رجسٹریشن بل، 2019 کے مسودے میں ڈیجیٹل میڈیا کو آراین آئی کے تحت لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ موجودہ وقت میں ڈیجیٹل میڈیا ملک کی کسی بھی تنظیم کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہے۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔
اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہوگا کہ وہ صحافیوں اور غیرمتفق آوازوں کو مارکر خاموش کرا دیںگے اور حقیقت کو چھپا لے جائیںگے، لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت آنے والی انٹرپرائز Broadcast Engineering Consultants India Limited(بی ای سی آئی ایل ) نے 25 اپریل 2018 کو ایک ٹینڈر سوشل میڈیا کمیونی کیشن ہب کے نام سے جاری کیا ہے۔ اس کے ذریعے حکومت فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نظر رکھےگی۔
عام انتخابات نزدیک ہیں اور یہ صاف ہے کہ مرکز کی حکمراں مودی حکومت آن لائن میڈیا پر لگام لگانا چاہ رہی ہے جس نے گزشتہ کچھ سالوں میں حکومت کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے نیوز پورٹل اور ویب سائٹس کوریگیولیٹ کرنے کے لئے کمیٹی بنائے جانے پر دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور سپریم کورٹ کی وکیل اونی بنسل سے ارملیش کی بات چیت۔
وزارت اطلاعات و نشریات نے نیوز پورٹل اور ویب سائٹس کوریگیولیٹ کرنے کے لئے اصول بنانے کو لےکر دس رکنی کمیٹی بنائی ہے۔