سابق جج ایس مرلی دھر نے پروفیسر جی این سائی بابا میموریل لیکچر میں کہا کہ آر ایس ایس تفرقہ انگیز ایجنڈہ کو فروغ دے رہی ہےاور گمراہ کن تاریخ پڑھا رہی ہے۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نوجوانوں کے ذہنوں پر قبضہ، ادارہ جاتی مداخلت اور اکیڈمک آزادی پر سوال اٹھائےاور سائی بابا کیس کے توسط سے عدلیہ کے رویے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
دہلی یونیورسٹی کے کیمپس میں یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کی رہائی کی مانگ کو لے کر تقریباً 36 تنظیموں کا مشترکہ محاذ ‘کیمپن اگینسٹ اسٹیٹ رپریشن’ کے بینر تلے مظاہرہ کیا جا رہا تھا ۔ الزام ہے کہ اس دوران اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ارکان نے مظاہرین پر لاٹھی وغیرہ سے حملہ کیا۔
بامبے ہائی کورٹ نے جی این سائی بابا کو ماؤنوازوں کے ساتھ ان کے مبینہ لنک سے متعلق ایک کیس میں بری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دینے والا حکم قانون کی نظر میں غلط تھا۔ مہاراشٹر حکومت نے سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر روک لگانے کی اپیل کی تھی۔
گڑھ چرولی کی ایک عدالت نے 2017 میں جی این سائی بابا اور پانچ دیگر کو ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا قصور وار ٹھہرایا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ نے تمام لوگوں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ‘قومی سلامتی کے لیے مبینہ خطرہ’ کے نام پر قانون کو طاق پر نہیں رکھا جا سکتا۔