1984کے راجیو گاندھی اور 1993 کے نرسمہا راؤ کی طرح واجپائی تاریخ میں ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر بھی یاد کیے جائیں گے ،جنہوں نے سبق کو رواداری کا پڑھایا ،مگر بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی طرف سے آنکھیں موند لیں ۔
ملک بھر میں جاری شہریت ترمیم قانون کےخلاف احتجاج اور مظاہرے کے بیچ کرناٹک بی جے پی رہنما سی ٹی روی نے کہا کہ اگر ریاست میں اکثریت نے اپنا صبر و تحمل کھو دیا تو صورت حال وہی ہوگی جو گودھرا کے بعد ہوئی تھی۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پی آر پٹیل جون 2017 میں ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے عہدے سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ لیکن31 دسمبر، 2018 تک دو باران کی تقرری کی گئی ۔گزشتہ1 جنوری سے انہوں نے ریاستی حکومت کے محکمہ قانون میں اپنا نیا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
’اگر آپ ایک رہنما ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے، تب آپ لوگوں کی زندگی بچا پانے میں ناکام رہنے کی جوابدہی سے مکر نہیں سکتے۔ ‘
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سیلاب کی تباہی کی میڈیا کوریج اور اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت کے بارے میں سینئر صحافی پورنیما جوشی اور جنتا کا رپورٹر کے مدیر رفعت جاوید سےارملیش کی بات چیت۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
گجرات دنگے کے دوران آنند ضلع کے اوڈے قصبے میں ایک گھر میں آگ لگائی گئی جس میں اقلیتی طبقے کے 23لوگ جل کر مر گئے تھے۔