گزشتہ دنوں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سولہ کروڑ روپے کے اخراجات سےفیض آباد میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کےتاریخی محل ‘دلکشا’ کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا، تو لوگ حیران رہ گئے۔ تاہم اس کے بعد ’دلکشا‘ کو ’ساکیت سدن‘ کا نام دے کر اس کی شناخت کو مٹانے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔
بڑی تعداد میں اکیڈمک اداروں، بیرون ملک ہندوستانی تنظیموں اور دنیا بھر کے اسکالرز نے مبینہ طور پرمرکزی حکومت کے’تعلیمی طور پر رجعت پسندانہ اقدامات’ کو واپس لینے کے لیےحکومت کو کھلا خط لکھا ہے۔
سماجی انصاف اور محکمہ تفویض اختیارات کے سکریٹری آر سبرامنیم نے کہا کہ وزارتی سطح پر غور وخوض کرنےکے بعدمحسوس کیا گیا کہ بیرون ملک ہندوستانی تاریخ، ثقافت اور وراثت کا مطالعہ کرنے کے لیے اسکالرشپ کی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس لیڈر پی ایل پونیا نے اسے دلتوں کو اعلیٰ تعلیمی نظام سے راندہ درگاہ کرنے والا قدم بتایا ہے۔
ایک سیاسی مہم کے تحت شہر میں مختلف مقامات کو نئے نام دیے جا رہے ہیں۔لیکن جب ایک اخبار جو غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو، ایسی غیر ذمہ دارانہ اور مزموم حرکت کرے، تو شاید یہ عبرت کا مقام ہے۔
آرکیٹیکٹ ایس ایم حسین نے دی وائر کو بتایا کہ یہ بےحد افسوس کی بات ہے کہ ایک بعد کے ایک ان محلات کو گرایا جا رہا ہے اور شہر کی تاریخ مٹتی جار ہی ہے۔
امرتسر کے گوبندگڑھ قلعے میں تاریخ کی نشانیاں محفوظ رہنی چاہیے، لیکنمحکمہ آثار قدیمہ کو عمارت کا ذمہ دینے کے بجائے پنجاب حکومت نے بالی ووڈ اداکارہ دیپا ساہی کو اس کو ورچوول ریئلیٹی تھیم پارک میں بدلنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
ڈرامہ نگار رفیع شبیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کتابیں تباہ ہو گیئں۔ ‘کتابوں کے علاوہ مشہور زمانہ رسالہ کھلونا ، شمع سے لے کر آجکل جیسے رسالوں کی فایئلیں، سب بھیگ کر خراب ہو گیئیں، یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ بھوپال : صرف ڈیڑھ گھنٹے کی […]