پندرہ اگست 1947 کو ایک طویل جدوجہد کے بعد جب ہم نے اپنی سینکڑوں سال کی غلامی کا طوق اتار پھینکا تھا تو اس دن رمضان المبارک کا ستائیسواں روزہ اور آخری جمعہ تھا۔ ایسے میں رمضان، جمعتہ الوداع اور عید نہ صرف اسلامی بلکہ ہماری آزادی اور قومی اتحاد کا جشن بھی ہیں۔
پچھلے دس سالوں سے ہندو تہوار مسلمانوں کی مخالفت کا وسیلہ بن چکے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے تہوار منانے کا مطلب یہی رہ گیا ہے وہ جلوس نکالیں اور مسلمانوں کو گالی دیں۔ مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے گانے بجائیں اور ان کے خلاف تشدد کے لیے اشتعال پیدا کریں۔
جس وقت ہولی کے بہانے رمضان کو لے کر تنازعہ پیدا کرکے حملہ کیا جا رہا ہے، دہشت پیدا کی جا رہی ہے، اسی وقت دہشت کے دباؤ میں مسلم کمیونٹی اپنے پہناوے میں کھلے پن کو بڑھاوا دے رہی ہے، انہیں انسٹا پر درج کر رہی ہے۔ کہیں گھر گرایا جا رہا ہے تو کہیں مسجد خطرے میں ہے، روز ایسی خبروں کے درمیان انسٹا کے یہ ریل ایک تخلیقی بغاوت کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔
انج چودھری نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے- کچھ کو رنگ سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو رنگ پسند نہیں ہو سکتا۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد کیوں؟
اتر پردیش کے سہارنپور کا معاملہ۔ متاثرہ شخص نے الزام لگایا ہے کہ 18 مارچ کو ہولی کے دن شراب کا گلاس گرنے پر کچھ لوگوں نے زبردستی تیزاب سے اس کی پیشانی پر ترشول بنایا اور اس کی برادری کو نشانہ بناتے ہوئے توہین آمیز تبصرے کیے۔ حالاں کہ ،پولیس نے اسے جھوٹا معاملہ قرار دیا ہے۔
کوئی بھی جشن اور تہوار مذہب سے زیادہ انسان کےعشق و محبت کے جذبے کو بیدار کرتا ہے۔ہولی بھی ایک تہوار سے زیادہ کچھ ہے اس لئے ہندومسلمان میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ویڈیو: اردو شاعری میں ہولی کی روایت پر یاسمین رشیدی کا نظریہ۔
مسلمانوں میں ہولی کی روایت اورہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پر رعنا صفوی کا جائزہ
اتر پردیش پولیس کا کہنا ہے کہ امن و امان بنائے رکھنے کے لیے علی گڑھ کے حساس عبدالکریم چوراہا پر واقع ہلوائی یان مسجد کو شامیانےاور ترپال سے ڈھک دیا ہے، تاکہ ہولی کے دوران مسجد پر کوئی رنگ نہ پھینک دے۔
تو مسلمان نہیں ہے، تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘ شاید اس کو ‘ سوڈو ‘ لفظ پتہ نہیں تھا ورنہ وہ اس کا استعمال یہاں ضرور کرتا۔’تجھ کو اپنے آپ کو مسلمان بولنے میں شرم آنی چاہئے ‘، ‘ تو بال کٹاکر چوٹی رکھ لے ‘۔
راجستھان کے الور ضلع کا معاملہ : رنگ لگانے کو لے کر ہوا تھاتنازعہ