جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے؟
ہندوستانی فوج تنوع میں اتحاد کی روشن مثال ہے۔ یہ اتحاد ان طاقتوں کو پسند نہیں ہے جو نفرت اور تعصب کے داعی ہیں۔
بدھ کی شام بی ایچ یو کے گرلز ہاسٹل میں منعقد افطار پارٹی میں وائس چانسلر اور کچھ اساتذہ نے شرکت کی تھی، جسے ‘ایک نئی روایت کا آغاز’ بتاتے ہوئے طالبعلموں کے ایک گروپ نے دیر رات کو مظاہرہ کیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے قابل مذمت اور ماحول کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اہتمام برسوں سے ہو رہے ہیں۔
ہندوستانی فوج میں جموں کے تعلقات عامہ کے افسر کے ٹوئٹر ہینڈل نے فوج کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے سیکولرازم کی بات کہی تھی، جس کو نشانہ بناتے ہوئے سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے کہا کہ سیکولرازم کی بیماری ہندوستانی فوج میں بھی گھس گئی ہے۔ اس کے فوراً بعد پی آر او نے یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا۔
ہندوستان اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے، نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔
افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔
اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔