پچھلے کچھ دنوں سے آر ایس ایس لیڈروں کی زبان بدلی بدلی سی نظر آ رہی ہے، لیکن تبدیلی سنگھ کے ایجنڈے کا حصہ کبھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سنگھ نے ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے اپنے سویم سیوکوں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچایا ہے اور کیسے وہ جمہوری اور آئینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
سال 1995 کے بعد 2020 میں تمام برادریوں میں مسلم خواتین کی برتھ ریٹ میں سب سے تیز گراوٹ درج کی گئی۔ نتیجتاً ان کی آبادی میں اضافے کی شرح میں بھی کمی آئی۔ ایک سیاسی پروپیگنڈہ کے تحت مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی بات کرتے ہوئے خوف اور اندیشہ پیدا کر کے ہندوؤں کو پولرائزکیا جا رہا ہے۔
موہن بھاگوت نے کسی بھی برادری کا نام لیے بغیر ملک میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پرتشویش کا اظہارکیا۔ سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون کی گرفت سے بچتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں کی زبان کی وجہ سے دانشور حضرات بھی ان کے دفاع میں کود پڑتے ہیں، جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے نے کہا کہ ہمیں اس بات کا دکھ ہونا چاہیے کہ 20 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے ہیں اور 23 کروڑ لوگ یومیہ 375 روپے سے بھی کم کما رہے ہیں۔ غریبی ہمارے سامنے ایک قوی ہیکل دیو کی طرح چیلنج بن کر کھڑی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس شیطان کو ختم کیا جائے۔