’اہم ایشو بے روزگاری ہے، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، 500 روپیہ مزدوری بھی کم پڑ رہی ہے‘
کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔
کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔
ان انتخابات کے نتائج نے ترکیہ کے مستقبل کی ممکنہ سمت کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ یہ انتخابات اقتصادی پالیسی میں تبدیلی اور عالمی سطح پر ترکیہ کے ایک نئے کردار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا بیانیہ صرف قیادت میں تبدیلی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں ایک گہری تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
ویڈیو: سال 2023 میں آمدنی، بے روزگاری، غربت، مہنگائی، جی ڈی پی، زراعت، ایم ایس پی پر مودی حکومت کی اقتصادی پالیسی کیا رہی ہے؟ دی وائر کے اجئے کمار بتا رہے ہیں کہ ملک میں تقریباً 10 سال سے برسراقتدار مودی حکومت میں زیادہ تر لوگوں کی زندگی میں کوئی نمایاں اور بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
مغرب کے لیے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔
رائے عامہ اور تجزیہ کاروں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی کہ انتخابات دوسرے راؤنڈ میں چلے جائیں گے۔ مگر اکثر کا خیال تھا کہ کلیچ داراولو کو سبقت حاصل ہوگی، کیونکہ گرتی ہوئی معیشت اور اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے عوام خاصے نالاں تھے۔اردو ان اور ان کے قریبی حریف کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔ اس کو پاٹنا اپوزیشن امیدوار کے لیے اب نہایت ہی مشکل امر ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اردوان اور کلیچی داراولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مگر ابھی تک ہوئے دس جائزوں میں دونوں میں کوئی بھی آئین کی طرف سے مقرر 50فیصد جمع ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ دونوں کلیدی امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب 42 اور 43 فیصد کے آس پاس ہی گھوم رہا ہے۔
ابھی تک رائے عامہ کے جوابتدائی جائزے شائع ہوئے ہیں، ان کے مطابق حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
آرگنائزڈ سیکٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر معیشت کی ہمہ گیر اور جامع بحالی کا دعویٰ انتہائی گمراہ کن ہے۔
خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے باعث خوردہ مہنگائی بڑھی ہے اور لگاتار چوتھے مہینے ریزرو بینک کے ہدف کی بالائی حد سے زیادہ رہی۔ اپریل میں اشیائے خوردونوش کی افراط زر بڑھ کر 8.38 فیصد ہو گئی جو اس سےپچھلے مہینے میں 7.68 فیصد اور ایک سال قبل اسی مہینے میں 1.96 فیصد تھی۔
خصوصی رپورٹ: مرکزی وزیر پیوش گوئل کی قیادت والی قومی پیداواری کونسل کا کہنا ہے کہ وزارت زراعت کے تحت آنے والے نیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن نے جو نیلامی ضابطہ فروغ دیا ہے، اس سے مل مالکان کو بے تحاشہ منافع حاصل کرنے میں مدد مل رہی تھی۔ کونسل کی سفارش ہے کہ این اے ایف ای ڈی 2018 سے جاری نیلامی کے اس ضابطہ کورد کرے۔
ویڈیو: ہندوستان میں پٹرول، ڈیزل اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے کیب سروس کمپنیوں اولا اور اوبر نے بھی کئی ریاستوں میں کرایے میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی بڑھی ہے تو دوسری طرف سی ایم آئی ای کے مطابق بے روزگاری کے اعداد و شمار نیچے آئے ہیں۔ ان مسائل پر پروفیسرسنتوش مہروترا سے دی وائر کے یاقوت علی کی بات چیت۔
ویڈیو: حال ہی میں دال مل مالکان کے 4600 کروڑ روپے کے گھپلے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ انکشاف دو صحافیوں نتن سیٹھی اور شری گیریش نے کیا ہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق مل مالکان حکومت کو ناقص معیارکی دالوں کی فراہمی کے لیےذمہ دار تھے۔اس معاملے پر دونوں صحافیوں سےدی وائر کے اندر شیکھر سنگھ کی بات چیت۔
خصوصی رپورٹ: دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری ملکیت والی این اے ایف ای ڈی کی نیلامی کےعمل میں تبدیلیوں کے باعث مل مالکان کو گزشتہ چار سالوں میں5.4 لاکھ ٹن خام دالوں کی پروسسنگ کےلیے کم از کم 4600 کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ اس سے سرکاری خزانے کا شدیدنقصان ہوا اور ممکنہ طور پر دالوں کی کوالٹی بھی متاثر ہوئی۔
امریکہ میں مسلسل بڑھتی ہوئی افراط زر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےاقتصادی نظام میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
ویڈیو: دال اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہندوستان میں ہر سال غذائیت مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔دی وائر کے خاص پروگرام ‘کرشی کی بات’کے پہلے ایپی سوڈ میں اس موضوع پر ماہر زراعت دیویندر شرما کے ساتھ اندر شیکھر سنگھ کی بات چیت۔
سال 2019 میں اقوام متحدہ نے یہ اندازہ ظاہر کیا تھا کہ رواں مالی سال میں ہندوستان کی اکانومک گروتھ شرح 7.9 فیصدی رہ سکتی ہے۔ نئی دہلی: اقوام متحدہ (یواین) نے جمعرات کو کہا کہ ہندوستان کی اکانومک گروتھ کی شرح رواں مالی سال میں 5.7 فیصد […]
سی پی آئی (ایم)کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے ریل کرایہ اور ایل پی جی سلینڈر کی قیمتوں میں اضافہ کو لےکر بدھ کو حکومت کی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے میں مسافر کرایہ بڑھانے کے بعد لوگوں کے ذریعہ معاش پر دوسرا حملہ۔ یہ سب نوکری جانے، اشیائےخوردنی کی بڑھتی قیمتوں اور دیہی آمدنی میں ریکارڈ سطح پر گراوٹ کے درمیان ہو رہا ہے۔
ایس بی آئی کی رپورٹ کے مطابق،رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ گھٹ کر 4.2فیصد رہنے کے امکانات ہیں۔ اس کی وجہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی، ہوائی سفر میں کمی،کور ایریا کی گروتھ ریٹ مستحکم رہنے اور کنسٹرکشن، انفراسٹرکچر سیکٹر میں انویسٹمنٹ میں کمی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈیعنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈنے اپنی عالمی معاشی منظرنامے کی تازہ ترین رپورٹ میں ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو2019 میں6.1 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ اس سے پہلے ورلڈ بینک نے رواں مالی سال میں ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو کا اندازہ گھٹاکر چھے فیصد کر دیا تھا۔ مالی سال 2018-19 میں شرح نمو 6.9 فیصدی رہی تھی۔
اس سے پہلے کمیٹی کے اہم ممبر ڈاکٹرسرجیت بھلا ا س سال کی شروعات میں ہی کمیٹی سے الگ ہو گئے تھے۔
دیہی علاقوں میں نہ صرف زرعی آمدنی گھٹی ہے بلکہ اس سے جڑے کام کرنے والوں کی مزدوری بھی گھٹی ہے۔ وزیر اعظم مودی زرعی آمدنی اور مزدوری گھٹنے کو جوشیلے نعروں سے ڈھکنے کی کوشش میں ہیں۔
یو پی اے حکومت کے مقابلے گزشتہ 5 سالوں میں دیہی علاقوں میں مزدوری کی شرح میں اضافہ بہت کم رہا ہے اور یہ صرف زراعتی شعبہ تک ہی محدود نہیں ہے۔
بھلا کا استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب گزشتہ 15 مہینوں میں 3 اکانومسٹ حکومت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ۔ سب سے پہلے اگست 2017 میں نیتی آیوگ کے پہلے وائس چیئر مین اروند پن گڑھیا نے اپنا عہدہ چھوڑا تھا۔ اس کے بعد جون 2018میں سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنیم نے استعفیٰ دیا اور 10 دسمبر کو آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل نے استعفیٰ دیا تھا۔
بی جے پی کے لیے کیمپین کرنے کے سوال پر یوگ گرو رام دیو نے کہا،’میں کیوں کروں گا، میں ان کے لیے کیمپین نہیں کروں گا۔ ‘
سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ جن چار ٹائروں کی بنیاد پر معیشت کی گاڑی چلتی ہے ان میں سے تین ٹائر؛ایکسپورٹ ،نجی سرمایہ کاری اور کھپت پنکچر ہوچکے ہیں ۔یہ صورت حال مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
مودی بھلے ہی Ease of doing businessکی ورلڈ بینک رینکنگ میں بہتری پر اترا لیں، لیکن اصلی حال سرمایہ کاری،جی ڈی پی تناسب سے ہی پتا لگتا ہے۔ اگر نجی سرمایہ کاری اپنے رکارڈکی نچلی سطح پر ہے اور بہتری کا کوئی اشارہ بھی نہیں ہے، تو رینکنگ میں بہتری کا کیا مطلب ہے۔
میڈیا کی جلدبازی میں اگر کسی زندہ شخص کو دہشت گرد بناکر مردہ قرار دیا جائے تو آپ کیا کہیں گے ؟ اکنامکس یعنی اقتصادیات کا انسانی زندگی میں اتنا ہی دخل ہوتا ہے جتنا ہوا اور پانی کا۔ روزانہ کی خرید فروخت اور اشیاء کی قیمتوں کا […]