یونان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جی–20کے سربراہی اجلاس کے لیے ہندوستان جا رہے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوں ناٹو کے رکن ممالک ہیں، مگر یہ کئی دہائیوں سے مختلف دوطرفہ مسائل پر تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ یونان کے بارے میں میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق، اڈانی گروپ یونانی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اڈانی کی نگاہ دو بندرگاہوں پر ہے – کاوالا اور دوسری وولوس۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ الیگزینڈرو پولی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔
گزشتہ 18 دسمبر کو اتر پردیش حکومت نے ایک بیان میں کہا تھاکہ اس نے آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس کے تحت تقریباً 35000 کروڑ روپے کی لاگت سے 5000 ایکڑ اراضی پر ایک ‘سمارٹ سٹی آف نالج’ بنایا جانا ہے، جس میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے کیمپس ہوں گے۔ اب پتہ چلا ہے کہ یہ ‘یونیورسٹی’ ٹیکساس آسٹن کی ممتاز یونیورسٹی نہیں ہے۔
حکومت کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے۔ وہ ہر اقتصادی فیصلے کو ایک ایونٹ کےطور پر لانچ کرتی ہے۔ تماشہ ہوتا ہے، امیدیں بٹتی ہیں اور نتیجہ زیرو ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہریش سالوے نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ 2جی گھوٹالہ، کول بلاک اور ووڈافون معاملے میں دیے سپریم کورٹ کے فیصلے نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈرا دیا ہے۔
مودی بھلے ہی Ease of doing businessکی ورلڈ بینک رینکنگ میں بہتری پر اترا لیں، لیکن اصلی حال سرمایہ کاری،جی ڈی پی تناسب سے ہی پتا لگتا ہے۔ اگر نجی سرمایہ کاری اپنے رکارڈکی نچلی سطح پر ہے اور بہتری کا کوئی اشارہ بھی نہیں ہے، تو رینکنگ میں بہتری کا کیا مطلب ہے۔
کسی سرمایہ کاری کے بھلےبرے پر ظاہر کی گئی رائے کو اڈانی گروپ کے ذریعے ہتک عزت کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے معیشت میں نقد کی واپسی اور جواہر لعل نہرو کے خدمات پر ونودودا کا تبصرہ