کیا کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یکجا نہیں ہوسکتے؟کیا یہ خونی لکیرمٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوں کے جماؤ اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی؟ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں، توہندوستان اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟
امریکہ کے دورے پر گئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قبول کیا ہے کہ پچھلے 15 سالوں میں ان کے ملک میں 40 دہشت گردوں کے گروپ فعال رہے۔ ان کا الزام ہے کہ پچھلی حکومتوں نے پاکستان میں فعال دہشت گرد گروپوں کے بارے میں امریکہ کو سچ نہیں بتایا۔
امریکہ نے یہ کہتے ہوئےہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے پلواما حملے کے بعد جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ دہشت گرد قرار دئے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا اب وہ ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔اس بحث سے قطع نظر کہ یہ دلیل کتنی صحیح یا غلط ہے، ہندوستان کے لئے امریکی مانگ کو خارج کرنا آسان نہیں۔
ہندوستان میں انتخابات کی گہما گہمی کے بیچ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ یقیناً وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر غور کرے اور ہندوستان کو پھٹکار لگائے۔
کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے وویکانند انٹر نیشنل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر شائع اجیت ڈوبھال کے انٹرویو کا اسکرین شاٹ شیئر کیا ہے ۔ اس میں ڈوبھال کہہ رہے ہیں کہ مسعود اظہر کو آئی ای ای ڈی بم بنانا نہیں آتا تھا ، نشانہ لگانا نہیں آتا تھا اور اس کی رہائی کے بعد سیاحت میں 200 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان نے کہا ہے کہ ،ان کی حکومت کی پالیسی یہی ہے کہ پاکستان کی زمین پر کسی کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمین پر پنپ رہی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے ایسا نہ کرنے کی صورت میں بات چیت کی تجویز سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے لئے نریندر مودی کی ایک اور جیت سے اچھا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ان کی پالیسیوں نے پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کا کام کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔
کانگریس سمیت 21 اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے کہا گیا ہےکہ پلواما دہشت گردانہ حملے کے بعد حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے جوانوں کی شہادت پر سیاست کی جو باعث تشویش ہے۔
کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریسی رہنما سدھارمیا نے کہا کہ ووٹوں کے لیے بی جے پی کے منصوبے کو جان کر حیران ہوں۔ کوئی بھی دیش بھکت فوجیوں کی شہادت پر اس طرح کے فائدے کو حاصل کرنے کی بات نہیں کر سکتا،یہ صرف ایک دیش دروہی ہی کر سکتا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق جیش محمد سے ہے۔پولیس نے کہا کہ ہم اس کی بھی جانچ کر رہے ہیں کہ وہ یہاں پلواما حملے کے پہلے آئے ہیں یا بعد میں۔