عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع میں تبدیلی لانے کے عمل کو ‘جسٹ ٹرانزیشن’ کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم، ملک کی دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں کوئلے پر انحصار کرنے والے کچھ گاؤں کے لوگوں کی حالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس طرح کی تمام تبدیلیوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
گزشتہ دسمبر میں اتر پردیش اور ہریانہ کی سرکارنے اسرائیل میں ملازمت کے لیے تعمیراتی کارکنوں سے درخواستیں طلب کی تھیں۔ حکومت کا منصوبہ تنازعات سے متاثرہ ملک میں کم از کم 10000 مزدوروں کو بھیجنے کا ہے۔ ٹریڈ یونینوں کی دلیل ہے کہ ہندوستانی حکومت بیرون ملک تنازعات والے علاقوں میں کام کرنے جانے والے ہندوستانی مزدوروں کے لیے طے شدہ عمومی حفاظتی معیارات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
ویڈیو: کشمیریوں کے لیے بیرون ملک جانا اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاسپورٹ نہ دینے کے معاملے بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس ویریفیکیشن نہ ہونے یا پولیس کی منفی رپورٹ کے باعث پاسپورٹ سے محروم ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔آخر مسئلہ کیا ہے اور عام لوگوں پر اس کا کیا اثر پڑےگا، بتا رہے ہیں ذیشان کاسکر۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دسمبر کے مہینے میں شہری بے روزگاری کی شرح 10.09 فیصد اور دیہی بے روزگاری کی شرح 7.44 فیصد رہی ۔ سب سے زیادہ شرح 37.4 فیصد ہریانہ میں درج کی گئی۔
آر آر بی-این ٹی پی سی امتحان کے سلسلے میں طلبا کے مظاہروں کے بارے میں بی ایس پی سربراہ نے کہا کہ غریب اور بے روزگار نوجوانوں کےمستقبل کے ساتھ کھلواڑکرنا اور احتجاج کرنے پر ان کی پٹائی کرنا بالکل نامناسب ہے۔ وہیں کانگریس نے نوجوانوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان کے مسائل کو فوراً حل کرے اور گرفتار طلبا کو رہا کرے۔
ریلوےبھرتی بورڈ کی جانب سےغیرتکنیکی زمروں (آرآر بی-این ٹی پی سی)کے لیےامتحانات میں مبینہ بے ضابطگیوں کےخلاف احتجاجی مظاہروں کے بیچ ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو نے امن و امان بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے طلبہ کو ان کی شکایات کے ازالے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ریلوےبھرتی بورڈ کےآرآر بی-این ٹی پی سی امتحان 2021 کے نتائج کے خلاف الہ آباد میں ریلوے ٹریک پر اترنے والے امیدواروں پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں، وہیں بہار کے سیتامڑھی میں پولیس نے ہوائی فائرنگ کرکے مظاہرین کو منتشر کیا۔ احتجاجی مظاہروں کے بیچ ریلوے نے پٹری پر مظاہرہ، ٹرین کی آمدورفت میں خلل ڈالنے اور ریلوے کی املاک کو نقصان پہنچانے جیسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو زندگی بھر کے لیےنوکری سے محروم رکھنے کی وارننگ دی ہے۔
لداخ کے محکمہ ریونیو میں نوکریوں کے لیے اردو زبان کی اہلیت کو ختم کرنے کے فیصلے پر مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ضلع لیہہ اور مسلم اکثریتی کارگل کے بیچ نظریاتی اختلافات پیدا کرنے کے مقصد سےاٹھایاگیافرقہ وارانہ قدم ہے، لیکن اس سے سیاسی فائدہ نہیں ہوگا، بس ایڈمنسٹریشن کی سطح پرمسائل پیدا ہوں گے۔
روزگار کی شرح یالیبر فورس کی شرکت کا تناسب اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ معیشت میں کتنے روزگار کے اہل لوگ اصل میں نوکری کی تلاش میں ہیں۔سی ایم آئی ای کےمطابق،ہندوستان کے لیبر فورس کی شرکت کا تناسب مارچ 2021 میں41.38 فیصدی تھا (جو کہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے بالکل قریب ہے)لیکن گزشتہ ماہ یہ گر کر 40.15 فیصدی رہ گیا۔
ہندوستان کےسابق چیف شماریات دان اورسینئر ماہراقتصادیات پرنب سین نے کہا کہ ملک کی معیشت سے جڑے مسائل کو حل کرنے کا واحد راستہ عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، لیکن اس کے لیے مرکز اور ریاستوں کےدرمیان سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلسل اقتصادی ترقی کےکسی بھی دور کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی آتی ہے اور لیبرفورس زراعت سے انڈسٹری اورسروس سیکٹر کی طرف گامزن ہوتا ہے۔حالیہ اعدادوشمار دکھاتے ہیں کہ ملک میں ایک سال میں تقریباً1.3کروڑ مزدور ایسےسیکٹر سے نکل کر کھیتی سے جڑے ہیں۔ عالمی وبا ایک وجہ ہو سکتی ہے،لیکن مودی سرکار کی اقتصادی پالیسیوں نے اس کی زمین پہلے ہی تیارکردی تھی۔
گزشتہ13 دسمبر کو بی جے پی نے روزگار کارڈ دینے والی مہم کو شروع کرتے ہوئے پارٹی کے آئندہ اسمبلی انتخاب جیتنے پر 75 لاکھ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب اس مہم کو روک دیا گیا ہے۔
ہندوستانی معیشت کی مانیٹرنگ کرنے والے مرکز(سینٹر فار مانیٹرنگ اکانومی، سی ایم آئی ای) کی جانن سے جاری حالیہ اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی بے روزگاری کی شرح فروری 2020 میں 7.78 فیصد پر پہنچ گئی ہے، جو اکتوبر 2019 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔
نوٹ بندی کے وقت کہا گیا تھا کہ اس کےدور رس نتائج ہوںگے۔ تین سال ہو گئے، آئندہ کتنے سال میں آئےگا دوررس؟
گراؤنڈ رپورٹ: مختلف شعبے میں اقتصادی بحران کے بیچ بڑے پیمانے پر روزگار کے جانے کا اندیشہ ہے۔ دی وائر نےا پنی اس گراؤنڈ رپورٹ میں گارمنٹس انڈسٹری کے ان ملازمین سے بات کی جنہوں نے الزام لگایا کہ پروڈکشن اور ڈیمانڈ میں کمی کی وجہ سے وہ روزگار سے محروم ہوچکے ہیں ۔اس کے علاوہ ان یونین رہنماؤں سے بھی بات کی گئی جن کا دعویٰ ہے کہ اس سال غیرمعمولی اقتصادی بحران کی وجہ سے لوگوں کو اپنے روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے۔
شیو سینا نےاپنے ماؤتھ پیس سامنا میں کہا ہے کہ محض لفظو ں کے کھیل یا اشتہارات سے بڑھتی بے روزگاری کا مدعا حل نہیں ہونے والا ۔صرف اشتہارات دینے سے ہی نوکریاں نہیں مل جائیں گی ۔
عام انتخاب سے ٹھیک پہلے بےروزگاری سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی یہ رپورٹ لیک ہو گئی تھی اور جمعہ کوحکومت کے ذریعے جاری اعداد و شمار میں اس کی تصدیق ہو گئی۔
مودی حکومت کے دعوے اور ان کی زمینی حقیقت پر اسپیشل سریز: 2016 میں مرکزی حکومت کے ذریعے شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور نوجوانوں کو تربیت دے کر ان کو روزگار دینا تھا۔ آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق 31 مارچ 2018 تک 20 لاکھ ٹرینی کو تیار کرنے کا ہدف تھا، جس میں سے صرف 2.90 لاکھ ٹرینی تیار ہوئے۔ ان میں سے بھی محض 17493 کو اس اسکیم کا فائدہ ملا۔
گجرات میں بےروزگاری کی شرح سب سے تیزی سے بڑھی ہے۔ یہ شرح سال12-2011 میں 0.5 فیصد تھی، جبکہ18-2017 میں بڑھکر 4.8 فیصد پر پہنچ گئی۔
انتخابی منشور میں سرکاری نوکریوں کو ایک لفظ کے لائق نہ سمجھکر بی جے پی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے لئے نوجوان اور روزگار دونوں کا مطلب بدل گیا ہے۔
اس سال 1 فروری تک مدرا یوجنا کے تحت 7.59 لاکھ کروڑ روپے کی رقم خرچکر کل 15.73 کروڑ قرض دیا گیا۔حالانکہ اتنی بڑی تعداد میں رقم خرچ کرنے کے باوجود صرف 1.12 کروڑ اضافی روزگار ہی پیدا ہو سکے۔
راہل کے وعدے میں ایک ڈیڈلائن ہے اور ایک نمبر ہے۔ مودی کی طرح ہرسال دو کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کر کے دائیں بائیں کرنے کا پیٹرن نہیں ہے۔
سال 2005-2004سے اب تک 5 کروڑ سے زیادہ دیہی خواتین نیشنل مارکیٹ کی نوکریاں چھوڑ چکی ہیں ۔ یہ اعداد و شمار این ایس ایس او کے پی ایل ایف ایس (Periodic Labour Force Survey) 2018-2017 کی رپورٹ پر مشتمل ہے جس کو مودی حکومت نے جاری کرنے پر روک لگادی ہے۔
این ایس ایس او کے ذریعے سال2018-2017 میں کئے گئے سروے سے یہ پتہ چلا ہے کہ 12-2011 سے لےکر18-2017 کے درمیان کھیت میں کام کرنے والے عارضی مزدوروں میں 40 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ حکومت نے اس سروے کو جاری کرنے سے منع کر دیا ہے۔
آئندہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے روزگار کو لےکر یہ تیسری رپورٹ ہے جس کو مودی حکومت نے دبا دیا ہے۔ اس سے پہلے اس نے بےروزگاری پر این ایس ایس او کی رپورٹ اور لیبر بیورو کی نوکریوں اور بےروزگاری سے متعلق 6ویں سالانہ رپورٹ کو بھی جاری ہونے سے روک دیا تھا۔
اب تو وزیر اعظم نے نوکری کے بارے میں جھوٹ بولنابھی بند کر دیا ہے۔ کیا اس بار پچھلے انتخاب کی طرح 2 کروڑ کی جگہ 4 کروڑ روزگار دینے کا جھوٹا نعرہ آئےگا؟
پچھلے سال بھی انڈین ریلوے کی63ہزار ملازمتوں کے لیے انيس ملین درخواستیں جمع کرائی گئی تھيں۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی بےروزگاری پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پلواما کے بعد ایئر اسٹرائک ان کے لئے بہانہ بن گیا ہے۔راشٹر واد راشٹر واد کرتے ہوئے انتخاب نکال لیںگے اور اپنی جیتکے پیچھے خوفناک بےروزگاری چھوڑ جائیںگے۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی(سی ایم آئی ای) کی منگل کو جاری رپورٹ کے مطابق، اس سال فروری میں بےروزگاری کی شرح 7.2 فیصد ہو گئی جو کہ ستمبر 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ سال فروری میں یہ اعداد و شمار 5.9 فیصدی تھا۔
مالی سال 2018 کی شروعات میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے ریٹائر ہورہے 12ہزار لوگوں کی جگہ صرف 10ہزار لوگوں کی تقرری کی کارروائی شرو ع کی۔
نیتی آیوگ نے جمعرات کو منسٹری آف لیبر سے سروے کی کارروائی شروع کرنے اور 27 فروری کو اس کے نتائج پیش کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ اس کو مارچ کے پہلے ہفتے میں جاری کیا جاسکے۔
کانگریس کو ابھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ لوک سبھا انتخاب میں 100 سیٹوں سے زیادہ لا پائے گی۔ ایسے میں امید کی کرن یہی ہے کہ رائے دہندگان پارلیامنٹ میں کی گئی مودی کی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی اکانومک ایڈوائزری کاؤنسل کے چیف وویک دیورائے نے کہا کہ اصل مدعا روزگار کے اعدادو شمارکا نہیں بلکہ روزگار کے معیار اور تنخواہ کی شرحیں ہیں۔
ملک کے سرکاری اسکولوں میں دس لاکھ اساتذہ نہیں ہیں۔ کالجوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کے بچّے تیسری کی کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ڈپریشن سے گزریںگے کیونکہ اس کے ذمہ دار بچّے نہیں، وہ سسٹم ہے جس کو پڑھانے کا کام دیا گیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے مودی حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ،حکومت کی بد نیتی کی وجہ سے 29 جنوری 2019 کو ایک اور اہم ادارہ ختم ہوگیا۔
نیشنل سیمپل سروےآفس (این ایس ایس او)نے یہ اعداد و شمار جولائی 2017 سے جون 2018 کے درمیان جمع کیے ہیں ۔ نومبر 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے نوٹ بندی کے بعد ملک میں روزگار کی صورت حال پر یہ پہلا سروے ہے۔
رپورٹ کے مطابق، خاتون اہلکاروں کی ایک ٹیم ریلوے بورڈ کے سابق چیئر مین سے ملی تھی جس کے مد نظر ایک خط ڈی او پی ٹی کو لکھا گیا ہے اور اس میں مشورہ دیا گیا ہے کہ عورتوں کو مشکل کام والی نوکریوں سے نکال دینا چاہیے ۔
اتر پردیش میں کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں نہ رہنا کانگریس کے لیے بھی سودمند رہے گا۔ اس سے اسے راجستھان، مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں ایس پی، بی ایس پی کے امیدواروں کا تصفیہ کرنے میں آسانی ہوگی، جہاں پارٹی کو بی جے پی سے سیدھے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہونے کی امید ہے۔
وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ 2014 سے پہلے ملک میں موبائل بنانے والی صرف 2 کمپنیاں تھیں، آج موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی تعداد 120 ہو گئی ہے۔سوال ہے کہ کمپنیوں کی تعداد 2 سے 120 ہو جانے پر کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟
مودی نے شہری علاقوں سے کچھ وسائل ہٹاکر دیہی علاقوں کی طرف موڑنے کا داؤ چلا، لیکن کیا یہ کامیاب رہا ہے؟