ریاستی حکومت نے کووڈ 19 کا حوالہ دیتے ہوئے پہلی سے 10ویں جماعت کےنصاب کو محدود کرنے کے لیے اسلام، عیسائی مذہب اورٹیپو سلطان سے متعلق ابواب ہٹانےکی تجویز رکھی تھی۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا تھا کہ سرکار اپنے رائٹ ونگ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔
چند برس قبل بی جے پی کی آئی ٹی سیل میں کام کرنے والے ایک نوجوا ن نے بتایا کہ ان کو مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی بھر پور ٹریننگ دی جاتی ہے۔مختلف ناموں سے شناخت بناکر سوشل میڈیا پر کسی مسلم ایشو کو لےکر بحث شروع کروائی جاتی ہے یا قرآن و حدیث و شریعت کو لےکر دل آزاری کی جاتی ہے۔
بی جے پی کرناٹک نے کہا ہے کہ ، ‘ٹیپو جینتی’ کی عوامی تقریبات کا خاتمہ کرکے ، ہمارے وزیر اعلی نے ریاست کی عزت بحال کی ہے۔اب اگلے قدم کے طو رپرہمارے بچوں کے سامنے اصلی ٹیپو سلطان کو سامنے لانے کے لیے درسی کتاب کوپھر سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ ٹیپو نے ہندوؤں کے خلاف ظلم کیا اور وہ کنڑ مخالف تھا۔
وزیر تعلیم نے افسروں سے کہا ہے کہ وہ متنازعہ حکمراں ٹیپو سلطان پر مشتمل باب کو تاریخ کی نصابی کتابوں سے ہٹانے کے بی جے پی ایم ایل کے مطالبے پر غور کریں اور تین دن میں رپورٹ دیں ۔
چونکہ ٹیپو مذہب سے ایک مسلم حکمراں تھا، سامراجی مؤرخ کی یہ وضاحت فرقہ وارانہ تاریخی تحریر کی روایت میں زندہ رہی کیونکہ آر ایس ایس جیسی تنظیم نے اس کو آگے بڑھایا۔ انگریزی حکومتکے شروعاتی دنوں سے ہی ٹیپو سلطان کو لےکر ایک فرضی کہانی کی تشکیل […]
جس ٹیپو سلطان کی پہچان بہادر حکمراں کے طور پر ہوتی رہی ہے اس کو اب ایک گروپ کے ذریعے ظالم، فرقہ پرست اور ہندو مخالف بتایا جا رہا ہے۔