اتر پردیش کے بریلی ضلع کے فرید پور کےایک سرکاری اسکول کا معاملہ۔وشو ہندو پریشد کے مقامی عہدیداروں نے مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے اسکول کی پرنسپل اور شکشامتر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
اپوزیشن نے مدرسوں کو بند کرنے کے آسام سرکار کے قدم کی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ریاست میں یہ پولرائزیشن کا ہتھکنڈہ ہے جہاں اگلے سال مارچ اپریل میں انتخاب ہونے ہیں۔ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ 97 موجودہ سرکاری سنسکرت اداروں کو اسٹڈی سینٹراور ریسرچ سینٹروں میں تبدیل کیا جائےگا۔
گزشتہ اکتوبر مہینے میں آسام کے وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ ریاست میں 610 سرکاری مدرسے ہیں اور سرکار ان اداروں پر ہرسال 260 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ جبکہ لگ بھگ 1000منظورشدہ سنسکرت اسکول ہیں اور ریاستی سرکار ان سنسکرت پاٹھ شالاؤں پر سالانہ لگ بھگ ایک کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔
اتر پردیش میں11621منظورشدہ اور 2907 غیر منظور شدہ مدرسے چل رہے ہیں۔ حال ہی میں اتر پردیش سرکار نے مدرسوں میں این سی ای آر ٹی نصاب کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
رام کو امامِ ہند کہنے والے اقبال نے کیا نہیں لکھا،لیکن اب ملک کی سیاست زیادہ شدت سے پہچان کی سیاست کے گرد ناچ رہی ہے۔ زبان و ادب یا کوئی بھی ایسی چیز جو ان دو ملکوں کو جوڑ سکتی ہے اس پرحملہ تیز ہو گیا ہے اتفاق سے ہندوستان میں ایسی تمام چیزیں کسی نہ کسی طور پرمسلمانوں سے جوڑ دی گئی ہیں اس لئے مسلمان اس حملے کی زد میں ہے۔
وشو ہندو پریشد نے پیلی بھیت کے ایک پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر پر قومی ترانے کی جگہ اقبال کی دعا پڑھوانے کا الزام لگایا ۔ ان سے شکایت نہیں لیکن ضلع مجسٹریٹ سے ہے ۔ انہوں نے جس دعا کے لیے ہیڈ ماسٹر کو سزا دی ، کیا اس کے بارے میں ان کو کچھ معلوم نہیں ؟ کیا ب ہم ایسی انتظامیہ کی مہربای پر ہیں جو وشو ہندو پریشد کا حکم بجانے کے علاوہ اپنے دل اور دماغ کا استعمال بھول چکے ہیں ؟
ہیڈ ماسٹر پر الزام تھا کہ صبح کی اسمبلی میں بچوں سے علامہ اقبال کی نظم لب پہ آتی ہے دعا…پڑھائی جاتی تھی۔وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کا کہنا تھا کہ یہ مذہبی نظم ہے اور مدرسوں میں گائی جاتی ہے۔
ورما نے دہلی کے گورنر کو خط لکھ کر الزام لگایا تھا کہ راجدھانی میں کئی مسجدوں کی تعمیر سرکاری زمین پر غیر قانونی طریقے سے کی گئی ہےاور ایسی مسجدوں کو گرا دیا جائے۔
مغربی دہلی سے بی جے پی رکن پارلیامان پرویش صاحب سنگھ ورما نے دہلی میں مبینہ طور پر سرکاری زمینوں پر غیر قانونی طور سے بنی 50 سے زیادہ مسجدوں، قبرستانوں اور مدرسوں کی لسٹ ایل جی کو سونپی ہے۔
یہ واقعہ اتر پردیش کے اناؤ کا ہے۔ الزام ہے کہ کرکٹ کھیلنے پہنچے ایک مدرسے کے طلبا کو بھلابرا کہتے ہوئے کچھ نو جوانوں نے مبینہ طور پر جئےشری رام بولنے کو کہا۔ منع کرنے پر ان کو بلے سے پیٹا گیا اور بھاگنے پر پتھراؤبھی کیا گیا۔
غفران کے چچا زاد بھائی نےکہا- تڑپا تڑپا کر مارنے سے اچھا تھا پولیس اس کو تلوار سے کاٹ دیتی۔اس معاملے میں قتل کے ملزم ڈمرا تھانہ انچارج سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیاگیا ہے۔ فرار تھانہ انچارج اور پولیس اہلکاروں کی تلاش جاری ہے۔
اتر پردیش شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے چیئر مین وسیم رضوی نے مدرسوں کو بند کیے جانے کی تجویز سے متعلق اپنے خط کو حکومت ہند کے ذریعے منظور کیے جانے اور اس تجویز کو آگے کی کارروائی کے لیے ایم ایچ آر ڈی کو بھیجنے پر خوشی […]
وزیر اعظم کو لکھے اپنے خط میں رضوی نے کہا ہےکہ ،کوئی بھی مشن چلانے کے لیے بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس وقت آئی ایس آئی ایس ایک خطرناک دہشت گرد تنظیم ہے جو دھیرے دھیرے مسلم آبادی میں اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔
محمدعظیم نامی یہ بچہ ایک مدرسےکاطالبعلم تھا۔بچےکی موت کےبعدآن لائن پورٹلوں پرجوخبریں شائع ہوئی تھیں ان میں یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ عظیم کوایک بھیڑ نے مذہبی تشدد کی بنا پر لنچ کر دیا۔
مالویہ نگر کے بیگم پور کے ایک مدرسے میں پڑھنے والے8 سالہ محمد عظیم کا کھیلکے دوران کچھ بچوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا تھا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے4ملزم بچوں کو حراست میں لیا ہے، جن کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان ہے۔
مدرسے میں مسلم مدرس کے ذریعے ہندو مذہب کا مذاق،راہل گاندھی کی مذہبی پہچان اور یوگا کی تصویروں کے درمیان ہندوستانی ہائی کمیشن کے ٹوئٹ کا سچ۔
ریاست کے مدرسوں میں پڑھ رہے ہزار سے زیادہ نیپالی بچے آدھار کارڈ کی لازمیت اور مدرسہ بورڈ کے ذریعے دوسرا اختیار نہ دینے کی وجہ سے آنے والے امتحان میں نہیں بیٹھ سکیںگے۔
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین سید غیورالحسن رضوی نے کہا کہ اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے حکومت کی نظر میں اچھا بننے کے لئے مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑا۔
شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے صدروسیم رضوی نے کہا کہ مدرسوں کو چلانے کے کے لیے پیسے پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی آتے ہیں اور کچھ دہشت گرد تنظیم بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔
ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارسِ عربیہ نے الزام لگایا کہ اقلیتی فلاح و بہبود افسر کو رشوت نہ دے پانے کی وجہ سے کچھ مدرسوں کی تفصیل سرکاری پورٹل پر نہیں آ پا رہی ہے۔ چھٹیاں کم کرنے کو لےکر وزیراعلیٰ سے نظرثانی کی مانگ۔