مودی سرکار کے ترقی کے تمام دعووں کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ 19.5 کروڑ ناقص غذائیت کے شکار افراد ہندوستان میں ہیں۔ یو این کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے نصف سے زیادہ لوگ (79 کروڑ) اب بھی ‘مقوی یا صحت بخش غذا’ کے اخراجات برداشت کرنے کےمتحمل نہیں ہیں، جبکہ 53 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
کووڈ- 19 لاک ڈاؤن کے دوران ملک میں بھوک مری کی حالت دیکھنے کے بعد اس سے انکار کرنا غیر انسانی ہے۔ جب گلوبل ہنگر انڈیکس نے ہندوستان کی حالت زار کی نشاندہی کی تو مرکزی حکومت نے رپورٹ کو ہی خارج کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے پچھلے آٹھ سالوں میں بھوک مری اور غذائیت کے مسئلے کو دور کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟
سال 2022 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان پچھلے سال 101 ویں پائیدان سے پھسل کر107 ویں مقام پر آ گیا ہے۔ اس رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو ‘تشویشناک’بتایا گیا ہے۔
سال 2021 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کے 101 ویں پائیدان پرپہنچنے کےلیےاپوزیشن پارٹیوں نے مرکز کی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ حکمرانوں کی کارکردگی پر سیدھا سوال ہے۔ وہیں سرکار نے اس گراوٹ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے رینکنگ کے لیے استعمال کیے گئے طریقہ کو ‘غیر سائنسی’ بتایا ہے۔
سال 2021 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان پچھلے سال کے 94 ویں نمبر سے پھسل کر 101 ویں پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔آئرلینڈ کی ایجنسی کنسرن ورلڈوائیڈ اور جرمنی کے ادارے ویلٹ ہنگر ہلفے کے ذریعےمشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو ‘تشویشناک’بتایا گیا ہے۔
سابق ہیلتھ سکریٹری کےسجاتا راؤ نے کہا ہے کہ غذائی قلت اور صحت مند طرز زندگی کے فقدان کی وجہ سے کافی تعداد میں لوگوں کے اندر بیماری سے لڑنے کی طاقت کم ہے۔ ایسے میں بیماریوں کو لےکرمستقل تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کی ہمارے ملک میں کافی کمی ہے۔
یونیسیف نے ’دی اسٹیٹ آف دی ورلڈس چلڈرن 2019 ‘ نام کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں پانچ سال سے کم عمر کے ہر پانچویں بچے میں وٹامن اے کی کمی ہے، ہر تیسرے بچے میں سے ایک میں وٹامن بی 12 کی کمی ہے اور ہر پانچ میں سے دو بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔
2019 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان دنیا کے ان 45 ممالک میں شامل ہے، جہاں بھوک مری سنگین سطح پر ہے۔ فہرست کے مطابق، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور میانمار اس معاملے میں ہندوستان سے بہتر حالت میں ہیں۔
بہار میں کیئر فاؤنڈیشن اور پروجیکٹ کنسرن انٹرنیشنل ان انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 65 فیصدی گھروں میں مختلف قسم کی مقوی غذا دستیاب ہیں، لیکن جانکاری کے فقدان میں صرف 13 فیصدی فیملی ہی آٹھ مہینے سے ڈیڑھ سال کے بچوں کو مناسب مقوی غذا دے رہی ہیں۔
72 پارلیامانی حلقوں میں 12 جھارکھنڈ، 19 مدھیہ پردیش، 10 کرناٹک ، 8 اترپردیش اور 6 راجستھان سے ہیں۔
اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل نے اڈانی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے جی کے جنرل ہاسپٹل میں ہوئی بچوں کی موت کی وجہ مختلف بیماریوں کو بتاتے ہوئے کہا کہ ہاسپٹل نے طے معیارات کے تحت ہی علاج کیا ہے۔
جھارکھنڈ حکومت نے تو بھوک مری کے مدعے سے اپنا منھ ہی پھیر لیا ہے۔ الٹا، جو لوگ بھوک مری کی صورت حال کو اجاگر کر رہے ہیں، حکومت ان کی منشا پر لگاتار سوال کر رہی ہے۔
مشرقی دہلی کے منڈاولی میں گزشتہ جولائی مہینے میں تین بچیوں کی موت ہوگئی تھی ۔ بچیاں سگی بہنیں تھیں ۔ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کو کئی دنوں سے کھانا نہیں ملا تھا ۔ جانچ کے دوران بچیوں کے بدن میں کوئی زہر نہیں ملا ۔
بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ہی مدھیہ پردیش کوہندوتوا کے لیب میں تبدیل کر دیا ہے۔ نقل مکانی، آدیواسی حقوق، غذائی قلت، بھوک مری،کھیتی کسانی جیسے مدعوں پر کوئی بھی بات نہیں کر رہا ہے۔
بی جے پی کی مدھیہ پردیش اکائی نے انتخابی ماحول میں’سمردھ مدھیہ پردیش’مہم کی شروعات کی ہے جس کے تحت ریاست کی عوام سے حکومت بننے پر حکومت کیسے چلایا جائے، اس کو لے کر مشورہ مانگے جا رہے ہیں۔
گراؤنڈ رپورٹ : سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2016 سے جنوری2018 کے درمیان ریاست میں 57،000 بچوں نے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ دیا تھا۔ غذائی قلت کی وجہ سے ہی شیوپور ضلع کو ہندوستان کا ایتھوپیا کہا جاتا ہے۔
بھوک کے تازہ ترین عالمی انڈکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بیاسی کروڑ سے زائد انسان بھوک اور کم خوراکی کا شکار ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں یہ تعداد بین الاقوامی سطح پر مسلح تنازعات اور جنگوں کی وجہ سے اور بڑھی ہے۔
جھارکھنڈ کی رگھوبر داس حکومت غذائیت پرزوردے رہی ہے۔ پورا ستمبر غذائیت کے مہینے کے طور پر منایا گیا۔تقریبات کی ہوڑ رہی، وزیر اور افسر لگے رہے، لیکن 4 مہینے سے آنگن باڑی مراکز میں حاملہ خواتین اور بچوں کو غذا نہیں مل پا رہی ہے۔
مشرقی دہلی کے منڈاولی علاقہ میں بھوک سے مرنے والی لڑکیوں کی عمر 2، 4 اور 8 سال تھی۔ مزدور باپ دو دن سے لاپتہ ہے۔ ماں ذہنی طور پر بیمار ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق وہ 8 دنوں سے بھوکی تھیں۔
ضلع کے وجئے پور وکاس کھنڈ کی اکلود پنچایت کے جھاڑبڑودا گاؤں میں دو ہفتوں کے اندر 5 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ انتظامیہ غذائی قلت کی بات سے انکار کر رہی ہے اور اموات کی وجہ بخار بتا رہی ہے۔
صحت کے لیے مضر اور نقصان دہ ہونے کہ وجہ سے امیتابھ بچن نے 2014میں پیپسی کے ساتھ اپنا قرار رد کر دیا تھا۔امید کی جارہی ہے کہ امیتابھ ہارلکس کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔ نئی دہلی:امیتابھ بچن نے گزشتہ31 مئی کو ہندوستان میں غذائی قلت سے […]
سال 2018 کے شروعاتی 5مہینوں میں ہاسپیٹل میں پیدا ہوئے یا پیدائش کے بعد بھرتی کرائے گئے 777 نوزائیدہ بچوں میں سے 111 کی موت ہو گئی تھی۔ حکومت نے ایک کمیٹی بناکر جانچکے حکم دئے تھے۔
مدھیہ پردیش کے ڈبلیو سی ڈی ڈپارٹمنٹ(Women and Child development)کےاعداد و شمار کے مطابق ریاست میں جنوری 2016 سے جنوری 2018 کے درمیان قریب 57000 بچوں نے غذائی قلت کے سبب دم توڑ دیا۔
پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا کے تحت دی گئی اہلیت شرطیں اس کا مقصد پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اگر حکومتیں بچوں کی ابتدائی دیکھ بھال اور حفاظت پر دھیان دیتیں، تو آج راکھی، مینو اور سیتا زندہ ہوتیں۔
وزیر خارجہ سشما سوراج کےلوک سبھا حلقہ میں میں غذائی قلت کا معاملہ اجاگر،بی جے پی ایم ایل اے نے بھی اٹھائے سوال ۔ بھوپال:مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ بابولال گور سمیت حکمراں بی جے پی کےکئی ایم ایل اے نے ریاست میں بچوں کے غذا اور تغذیہ […]