ہندوستان کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پانچ سال قبل لیے گئے اس فیصلہ نے جموں و کشمیر کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو مؤخر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قدم انتہائی غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ماضی میں اس سے بھی خراب حالات میں انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔
پچھلے سال جب سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو جائز قرار دے کر، داخلی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی اقدام پر مہر لگا دی، تو اسی وقت حکومت سے عہد لیا کہ ستمبر 2024 تک کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرواکے وہ منتخب نمائندوں کے حوالے اقتدار کرے۔ اب سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق، مودی حکومت نے گورنر کو ہی اختیارات منتقل کیے، تاکہ منتخب وزیر اعلیٰ بطور ایک نمائشی عہدیدار کے مرکزی حکومت کے زیر اثر رہے گا۔
مہاتما گاندھی کی تعلیم کے بارے میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے دعوے کے برعکس انہوں نے لاء کی ڈگری کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اور لاطینی زبان میں ڈپلومہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے لندن کے انر ٹیمپل کے بار میں داخلے کے لیے درخواست بھی دی تھی۔
گزشتہ دنوں ایک پروگرام کے دوران جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا تھا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ گاندھی جی کے پاس قانون کی ڈگری تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے پاس یونیورسٹی کی ایک بھی ڈگری نہیں تھی۔ ان کی واحد اہلیت ہائی اسکول ڈپلومہ تھی۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
کشمیری صحافی عرفان امین ملک نے جموں وکشمیر کی فلم پالیسی کے بارے میں سات اگست کی شام کو ایک ٹوئٹ پوسٹ کیا تھا۔ حالانکہ ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے دو منٹ کے اندر ہی انہوں نے اسے ڈی لٹ کر دیا تھا، لیکن جموں وکشمیر پولیس نے آٹھ اگست کو ملک کو جنوبی کشمیر کے ترال پولیس اسٹیشن بلایا، جہاں ان سے اس بارے میں پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔
موجودہندو قوم پرست حکومت کوئی بھی قدم خلاف مصلحت نہیں اٹھاتی ہے، اسی لیے اس پر چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور بتایا جا تاہے کہ بیک ڈور سے سرینگر سے دارالحکومت کا درجہ چھین کر جموں کو دیا گیا ہے۔ ویسے بھی مرکزی حکومت کے کئی اہم ادارے برسوں قبل اپنے دفاتر مستقل طو پر جموں منتقل کر چکے تھے۔
جموں وکشمیر میں ہیومن رائٹس اور نابالغوں سے جڑے کیس لڑنے والے وکیل بابر قادری نے تین دن پہلے ایک ٹوئٹ کرکے پولیس سے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے ایک فیس بک صارف کے خلاف کیس درج کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
دونوں فوٹو جرنلسٹ جنوبی کشمیر کے پلوامہ کے ماروال گاؤں میں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے بیچ فائرنگ کو کور کرنے گئے تھے۔
ملک کی سب سے بڑی سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بی ایس این ایل نے حکومت سے کہا کہ کمپنی نقدی کے بحران سے جوجھ رہی ہے اور کام کاج جاری رکھنے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
مرکزی وزیر اور غازی پور بی جے پی ایم پی منوج سنہا نے کہا کہ پوروانچل کا کوئی بھی مجرم غاری پور میں گھس نہیں سکتا اور بی جے پی کے کارکنوں کو ترچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس نے ایسا کرنے کی حماقت کی تو اس کی آنکھیں نہیں رہیں گی ۔
آر ٹی آئی سے ملی اطلاع کے مطابق، مالی سال18-2017میں بی ایس این ایل نے جی ایس ایم موبائل فون سروس سے 7148.09 کروڑ روپے کا ریونیوکمایا۔ موجودہ مالی سال کے شروعاتی 10 مہینوں میں 4000.81 کروڑ روپے کا ریونیو کمایا ہے۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ سالوں سے کافی کم ہیں۔
بی ایس این ایل ملازمین کی تنظیموں نے کمپنی کو بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو خط لکھا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ریلائنس جیو سے مل رہے سخت مقابلہ کی وجہ سے کمپنی کی اقتصادی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مختار انصاری بھی اسی باغپت جیل میں بند ہیں جہاں منا بجرنگی کا قتل ہوا۔ ان کے بھائی نے کہا کہ مختار جب اتر پردیش اسمبلی سیشن میں شامل ہو رہے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے۔
خود کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لوک سبھا حلقہ بنارس میں انتخابی مہم سے جڑا لیڈر بتانے والے ڈاکٹر آدتیہ کمار سنگھ کو ٹوئٹر پر مرکزی وزیر پیوش گوئل کا دفتر اور پنجاب بی جے پی صدر وجئے سانپلا بھی فالو کرتے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سمیت بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کے ساتھ ان کی تصویریں ہیں۔ سنگھ کے پتھ سنچلن پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے بھی ان کو دیکھا جا سکتا ہے۔
مرکزی وزیر ریل پیوش گوئل نے کہا، متھرا ریلوے اسٹیشن کو ورنداون مندر، اجمیر شریف کو درگاہ اور آگرہ کو تاج محل سے جوڑا جاتا ہے تو ہماری تاریخ اور روایت کو بتانے میں ہندوستانی ریلوے کی بڑی خدمات ہوگی۔