ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں کچھ میڈیا ہاؤس کو سرکاری اشتہار نہ دینے کے مودی حکومت کے فیصلے پر سینئر صحافی راجیو رنجن ناگ، ستیہ ہندی ویب سائٹ کے مدیر آشوتوش اور دی وائر کے بانی مدیران میں سے ایک ایم کے وینو سے ارملیش کی بات چیت۔
مجموعی طور پر 2.6 کروڑ ماہانہ ر یڈرس والے تین بڑےاخبار گروپ کا کہنا ہے کہ مودی کے پچھلے مہینے لگاتار دوسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے کروڑوں روپے کے اشتہارات کو بند کر دیا گیا۔
رہنماؤں کی شان میں قصیدے پڑھنے کے اس دور میں آمنے سامنے بیٹھکر آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر سخت اور مشکل سوالوں کے لئے معروف کرن تھاپر کی کتاب ‘میری ان سنی کہانی’ کو پڑھنا باعث تسکین ہے، کیونکہ عدم اتفاق اور سوال پوچھنا ہی جمہوریت کی طاقت ہے۔
انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
اخبار’وشووانی’کے مدیر ویشویشور بھٹ نے کہا کہ خبر ذرائع پر مبنی تھی اور اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ وضاحت جاری کر سکتے تھے۔ بہت زیادہ تو ہتک عزت کا معاملہ دائر کیا جا سکتا تھا لیکن ایف آئی آر درج کرانا ایک نیا پیٹرن شروع کرنے جیسا ہے۔ میں یقینی طور پر عدالت میں اس کو چیلنج دوںگا۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بے دخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔
مدیران کا کام اقتدار کے لحاظ سےمواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کے موافق تشہیر کی ایک ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کروانے کے لیے اب یہ باورکرایا جا رہا ہے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے۔ کشمیر کے دونوں اطراف شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔
آزادی تو دورکی بات اب تو ڈوگرہ راج کی واپسی ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں کشمیر میں تو اب شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔
ہتک عزت کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ گھوٹالہ کی رپورٹنگ کے وقت جوش میں غلطی ہو سکتی ہے۔