چند بڑی طاقتیں احساس دلانا چاہتی ہیں کہ عام انسانوں کی محنت اور کوشش انہی کی طرح حقیر ہیں۔ انہیں اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر پیاسے انسان کو آبیاژوں سے بہلایا نہ گیا تو پیاس کی شدت صبرو تحمل کا بند توڑ سکتی ہے اور اگر بند ٹوٹا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی کھسک سکتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے شاعر،ناقد اورمعروف فکشن نویس غضنفر کو۔
آپ ہی سوچیے جس قوم نے وقت کی اہمیت کو ہمیشہ بعد از وقت محسوس کیا اس کے لیے کیلنڈروں کے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔
مجتبیٰ حسین نے کہا،جس جمہوریت کے لیے ہم نے لڑائی کی آج اس کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ اس لیے میں حکومت کا کوئی بھی ایوارڈ اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا۔پورے ملک میں خوف کا ماحول ہے۔ مجھے یہ بھی دکھ ہے کہ میں اپنے ملک کوکس حالت میں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
ہمانشو باجپئی کی یہ کتاب لکھنوی تہذیب کے عوامی کردار اور اس تہذیب کی آبیاری کرنے والے متعدد بے نام فنکاروں اور عوام کی روداد فنکارانہ شعور کے ساتھ بیان کرتی ہے۔