بی جے پی ایم پی روی کشن نے لوک سبھا میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا ہے، جس میں آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی دفعات ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو دو سے زیادہ بچوں کو جنم دینے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں انہیں سرکاری ملازمتوں اور سرکاری سہولیات اور سرکاری سبسڈی کے لیے نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔
ویڈیو: صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی جانب سے کیے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس ) کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ دو دہائیوں میں تمام مذہبی کمیونٹی میں مسلمانوں نے کی آبادی میں سب سے زیادہ گراوٹ دیکھی گئی۔ کمیونٹی کی فرٹیلیٹی یعنی تولیدی زرخیزی کی شرح 2019-2021 میں گر کر 2.3 ہو گئی، جو 2015-16 میں 2.6 تھی۔ اس ایشو پر الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ ایس وائی قریشی سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
حیرت کی بات ہے کہ ان کی پارٹی کے ایک اہم لیڈر جب اس مجوزہ قانون کا اعلان کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کیا جائےگا اس لیڈر کے اپنے آٹھ بچے ہیں ۔ خود اترپردیش اسمبلی میں اس وقت بی جے پی کے 152اراکین کے تین سے زیادہ بچے ہیں۔
اسمبلی انتخاب سےمحض چندہ ماہ قبل وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مجوزہ آبادی قانون کو ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ بڑھتی آبادی صوبے کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ لیکن کیایہ رکاوٹ اچانک رونما ہوئی ہے ؟ اگر نہیں، تو اس کو لےکراس وقت مناسب ا قدامات کیوں نہیں کیے گئے، جب ان کی حکومت کے پاس اس کو آگے بڑھانے کا وقت تھا؟
یوگی حکومت کی جانب سے مجوزہ آبادی کنٹرول قانون کے تحت دو سے زیادہ بچے ہونے پرسرکاری نوکریوں میں درخواست دینے سے لےکر مقامی بلدیاتی انتخابات لڑنے پر بھی روک ہوگی۔ اگراس بنیاد پرصوبے کے بی جے پی ایم ایل اے کاجائزہ لیا جائےگا تو ان کے پچاس فیصدی رہنمااس کسوٹی پر کھرے نہیں اتریں گے۔
صحت اور آدیواسی معاملوں کی وزارتوں کے ذریعے تشکیل شدہ ماہرین کمیٹی کے ذریعے آدیواسی صحت کو لےکر کئے گئے مطالعے میں پتا چلا ہے کہ آدیواسیوں کی صحت کی حالت بےحد تشویشناک ہے۔
ہندوستانی سماج کا تصور سبزی خور سمماج کے طور پر کیا جاتا ہے،لیکن کسی بھی سماجی گروہ کے کھان پان کی عادتوں سے جڑا کوئی بھی دعویٰ پوری طرح صحیح نہیں ہوسکتا
پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا کے تحت دی گئی اہلیت شرطیں اس کا مقصد پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔