رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔
معاملہ سنبھل کا ہے، جہاں ایک چکن شاپ کے مالک طالب حسین کو دیوی دیوتاؤں کی تصویروں والے اخبار میں چکن لپیٹ کرمذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ حسین نے ان کی گرفتاری کے لیے آئی ٹیم پر چاقو سے حملہ کیا، جبکہ ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ انھیں پھنسایا جا رہا ہے۔
ایک شاندار ماضی ہوتے ہوئے بھی اب اردو کے صرف مٹھی بھر قارئین رہ گئے ہیں اور اب اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
جمہوریت کو اپنےٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائےتوبہ مچائیے،مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کونظرانداز مت کریے۔
کووڈانفیکشن کےخطرے کے بیچ بھی ملک بھر کےمیڈیااہلکار لگاتار کام کر رہے ہیں، لیکن میڈیااداروں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جوکھم اٹھاکر کام کررہے ان صحافیوں کو کسی طرح کا بیمہ یا اقتصادی تحفظ دینا تو دور، انہیں بناوجہ بتائے نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔
کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے میڈیا میں نوکریوں کے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سوموار کو دی ہندو کے ممبئی بیورو کے 20 صحافیوں کو ایچ آر کی جانب سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا ہے۔
اخبارات کے کالم نگاروں کا موازنہ آپ نیوز چینلوں کے اینکرز سے کر سکتے ہیں کہ چینلوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھی ہے، اچھے اینکرز کی اہمیت و مقبولیت بڑھتی گئی ہے لیکن جس طرح چینلوں پربہت سے بھانڈ اورمسخرے میڈیا کی رسوائی کا سامان کرتے ہیں، ہمارے درمیان بھی قلم کی روشنائی سے اپنی روسیاہی کاسامان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
ویڈیو: جنگ آزادی میں روزنامہ ملاپ کی خدمات ،فکر تونسوی کا کالم پیاز کے چھلکے،اردو رسم الخط میں ہندی کا استعمال اور اردو صحافت کے مستقبل پر ملاپ کے مدیر نوین سوری سے فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ویڈیو:کلکتہ کی اردو صحافت، ایمرجنسی، اردو اخبار، مسلمانوں کی گرفتاری اور اردو صحافت کے مستقبل پر سینئر صحافی رضوان اللہ سے فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔
ایمرجنسی کے 43 سال بعد ان سینسر فرمان کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی لگی تھی اور کیسی کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
سوشل میڈیا پر فرضی خبروں کی تشہیر کے بارے میں اطلاعات و نشریات وزیر نے کہا کہ سوشل میڈیا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر وہاں کوئی غلط کنٹینٹ ہے، تو لوگوں کے پاس اس کو صحیح کرنے کی طاقت ہے۔
میڈیا کے سوال پوچھنے کی بات کرنا بیکار ہے کیونکہ وہ سوال پوچھنا بھول چکی ہے۔ وہ کم وبیش اسی راستے پر ہے جس کے لیے ان کو کہا جارہا ہے۔ ہندوستانی میڈیا تقریبا ستّر فیصد ہندوستان سے کس طرح کا سلوک کر رہی ہے، اس کا صحیح […]