ویڈیو: نئے آئی ٹی ضابطوں کے تحت گوگل کے بعد فیس بک نے بھی اپنی پہلی ماہانہ شفافیت (ٹرانسپیرنسی)کی رپورٹ دی ہے۔ دونوں کمپنیوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے مقامی قوانین یا شخصی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے سلسلے میں ملی شکایتوں کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مواد اپنے پلیٹ فارم سے ہٹائے ہیں۔ اس موضوع پر عارفہ خانم شیروانی کی ہارڈ نیوز کے مدیر سنجے کپور، ستیہ ہندی کے مدیر آشوتوش اورسینئر صحافی انورادھا بھسین سے بات چیت۔
بڑےمیڈیا گھرانوں نے نئے میڈیاضابطوں کو‘مبہم اورمن مانا’قرار دیتے ہوئے ٹھیک ہی کیا ہے، لیکن اس کویہ بھی سمجھنا چاہیے کہ روایتی میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور حالیہ وقت میں آئے ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز کے بیچ فرق کرنے کی کوششیں بھی قابل دفاع نہیں ہیں۔
وہاٹس ایپ کا کہنا ہے کہ نئے سوشل میڈیا ضابطےہندوستان کے آئین میں دیےپرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کمپنی کے اس مقدمے نے مودی حکومت اور فیس بک، گوگل کی بنیادی کمپنی الفابیٹ اور ٹوئٹر جیسی بڑی تکنیکی کمپنیوں کے بیچ پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
مرکز کے نئےسوشل میڈیا ضابطوں کے دائرے میں آن لائن نیوز پبلشر بھی ہیں۔ دی وائر اور دی نیوز منٹ کے بانی دھنیا راجیندرن کی طرف سے دہلی ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ضابطےڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جو اس کے بنیادی آئی ٹی ایکٹ 2000 کے منافی ہے۔
نامناسب طریقے سے بنائے گئے نئے سوشل میڈیاضابطےنیوز ویب سائٹس کو سوشل میڈیا اور اوٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ رکھتے ہیں۔ انہیں واپس لیا ہی جانا چاہیے۔
وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاویڈکرنے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ بیورو آف آؤٹ ریچ اینڈ کمیونی کیشن(بی اوسی)سوشل میڈیاپلیٹ فارمزسمیت مختلف میڈیا پلیٹ فارمزکے ذریعےبیداری مہم چلاتی ہے۔ پانچ سال میں صرف ایک مہم چلائی ، جس پر 21.66 لاکھ روپے خرچ ہوا۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے کہا ہے کہ پولیس کا کام صحافی کے کام میں رکاوٹ ڈالنا نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں، بلکہ ان کے کام میں معاون بننا ہے۔
تمام ریاستوں اور یونین ٹریٹری کے چیف سکریٹری کو لکھے خط میں وزارت اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ ٹی وی چینل اور نیوز ایجنسی مصدقہ اطلاعات پہنچانے کے بےحد ضروری ذرائع ہیں۔ جھوٹی اور فرضی خبروں سے بچنا ہوگا۔