خصوصی رپورٹ : دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1993 سے سال 2019 تک مہاراشٹر میں سیور صفائی کے دوران ہوئی 25 لوگوں کی موت کے معاملے میں کسی بھی متاثرہ فیملی کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ وہیں، گجرات میں سیور میں 156 لوگوں کی موت کے معاملے میں صرف 53 اور اتر پردیش میں 78 موت کے معاملوں میں صرف 23 میں ہی 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا۔
سیور کی صفائی کرتے ہوئے مارے گئے ان 64 لوگوں میں ریاستی حکومت نے 46 کی فیملی کو 10-10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا ہے۔ کمیشن نے دہلی انتظامیہ سے باقی فیملی کو ایک ہفتے کے اندر معاوضہ دینے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک کی آزادی کو 70سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ذات پات کو لے کر امتیازی سلوک برقرار ہے۔ ہر مہینے غلاظت صاف کرنےکے کام میں لگے چار سے پانچ لوگ کی موت ہو رہی ہے۔
ٹھیکے دار نے مزدوروں کو حفاظتی آلات دستیاب نہیں کرائے تھے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مرنے والوں کے اہل خانہ کو دس-دس لاکھ روپے کی رقم مدد کے طور پر دینے کا اعلان کیا ہے۔
سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ سکریٹری نیلم ساہنی نے قبول کیا کہ سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران صفائی اہلکاروں کی موت کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود ان تمام معاملوں میں 10 لاکھ روپے کے معاوضے کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔
سال2018میں18ریاستوں کے170اضلاع میں سروے کرایا گیا تھا۔ اس دوران کل 86528 لوگوں نے خود کو غلاظت ڈھونے والا بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا،لیکن ریاستی حکومتوں نے صرف 41120 لوگوں کو ہی غلاظت ڈھونے والا مانا ہے۔ بہار، ہریانہ، جموں و کشمیر اور تلنگانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے یہاں غلاظت ڈھونے والا ایک بھی آدمی نہیں ہے۔
نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری (این سی ایس کے) کی رپورٹ کے مطابق، یہ اعداد و شمار صرف 8 ریاستوں اتر پردیش، ہریانہ، دہلی، پنجاب، گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک اور تمل ناڈو کے ہیں۔
یہ معاملہ اتر پردیش کے ہاپوڑ ضلع کا ہے۔ پلکھوا تھانہ حلقہ کے ٹیکسٹائل سٹی میں واقع جی ایس داس کیمیکل فیکٹری میں جمعہ کی دوپہر سیپٹک ٹینک کی صفائی کرنے کے لئے ایک ملازم اترا تھا، جبکہ باقی چار اس کو بچانے کے لئے ٹینک میں اترے تھے۔
مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے لوک سبھا میں بتایا کہ پچھلے تین سالوں میں 88 لوگوں کی سیور یا سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران موت ہو گئی۔ سب سے زیادہ 18 اموات دہلی میں ہوئیں۔
حادثہ نوئیڈا کے سیکٹر 107 کے سلار پور میں ہوا۔ سیور کی کھدائی کرتے وقت پاس کے نالا کا پانی گڑھے میں بھر گیا، جس میں ڈوبنے سے مزدوروں کی موت ہو گئی۔ چھ گھنٹوں کی مشقت کے بعد این ڈی آر ایف کی غوطہ خور ٹیم نے لاشوں کو نکالا۔
تیسرے شخص کی حالت بہت نازک ہے اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ ابھی اس معاملے میں کیس درج کیا جا نا باقی ہے۔
شمالی دہلی کے تمار پور علاقے میں اتوار کو دوپہر میں سیور کی صفائی کرنے گئے کشن لاپتہ ہو گئے تھے۔ سیور کی صفائی کے دوران دم گھٹنے سی ان کی موت ہوئی اور سات گھنٹے بعد ان کی لاش بر آمد کی گئی۔
وڈودرا کی پادرا تحصیل میں واقع ایک نجی فوڈ پروسیسنگ کمپنی گلوبل گور میٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی پانی کی ٹنکی میں یہ حادثہ ہوا ہے۔
مرکز کے تحت کام کرنے والا ادارہ نیشنل صفائی کرمچاری فائننس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے بتایا کہ 163اضلاع میں کرائے گئے سروے میں 20000 لوگوں کی پہچان میلا ڈھونے والوں کے طور پر ہوئی ہے۔ حالانکہ ادارہ نے یہ اعداد و شمار نہیں بتایا کہ کتنے لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ میلا ڈھونے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔
غلاظت ڈھونے کی روایت ختم کرنے کے لئے کام کرنے والے سول سوسائٹی تنظیموں کے وفاق راشٹریہ گریما ابھیان کے ذریعے 11 ریاستوں میں کرائے گئے سروے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔