جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ ڈی جی پی آر آر سوین نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے مرکزی دھارے کے لیڈروں کے دہشت گردی سے وابستہ ہونے کے ’خاطرخواہ شواہد‘ موجود ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ان پر ایک مخصوص سیاسی نظریے اور سیاسی جماعت کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یہ واقعہ کلگام ضلع میں پیش آیا۔یہ جنگجو تنظیم ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’کے بانی عباس شیخ کا آبائی ضلع ہے، جس نے سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں رہنے والے مقامی اور غیر مقامی اقلیتوں پر حالیہ حملوں کی زیادہ تر ذمہ داری قبول کی ہے۔ رواں ماہ میں اب تک شہریوں کو نشانہ بنانے والی فائرنگ میں11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جموں وکشمیر میں گزشتہ چھ دنوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں سات شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے چھ سرینگر میں ہلاک ہوئے۔مہلوکین میں سے چار اقلیتی کمیونٹی سے ہیں۔سات اکتوبر کو سرینگر میں پرنسپل سپندر کور اور ٹیچر دیپک چند کوہلاک کر دیا گیا۔ پانچ اکتوبر کو کشمیری پنڈت کمیونٹی کے معروف کیمسٹ ماکھن لال بندرو سمیت تین لوگوں اور دو اکتوبر کو دو شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
1 جولائی 2016 کو ڈھاکہ کے گلشن علاقے میں واقع ہولی آرٹیشن کیفے میں اسلامک اسٹیٹ کے حملے میں ایک ہندوستانی لڑکی سمیت 22 لوگ مارے گئے تھے۔ حملے میں مارے گئے 16 دیگر غیر ملکی شہریوں میں 9 اطالوی ، 7 جاپانی شہری شامل تھے۔
ہلا ک ہونے والوں میں تین پولیس افسر اور ایک سکیورٹی گارڈ بھی شامل ہے۔ تقریبا 24 لوگ زخمی ہیں ، جن میں سے کچھ لوگوں کی حالت نازک ہے۔
پلواما حملے کے بعد گزشتہ 3 اپریل کو جموں و کشمیر حکومت نے لوک سبھا انتخابات کے دوران سکیورٹی فورسز کی آمد ورفت کے مدنظر ہفتے میں دو دن قومی شاہراہ نمبر 44 پر شہریوں کی آمدورفت پر پابندی لگا دی ہے۔ سپریم کورٹ میں داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ ایسا قدم کارگل جنگ کے وقت بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔
ہندوستان کی موجودہ قیادت بھی فی الحال کشمیر میں ظلم و جبر کے ہتھیار کا استعمال کرکے اس کو انتخابات میں بھنارہی ہے۔ کشمیریو ں کو اپنے ہی خطہ میں اپنی ہی راہوں سے بیگانہ کروانا ، سفری عصبیت کا بدترین مظاہرہ ہے۔