فلمساز اویناش داس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے دو تصویریں شیئر کی تھیں۔ ان میں سے ایک تصویر وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ جھارکھنڈ کی گرفتار آئی اے ایس افسر پوجا سنگھل کی تھی، جبکہ دوسری تصویر میں ایک خاتون نظر آ رہی تھی، جس کے بدن پر قومی پرچم پینٹ کیا گیا تھا۔
گجرات پولیس نے منی لانڈرنگ کیس میں حال ہی میں گرفتار جھارکھنڈ کی مائننگ (کان کنی)سکریٹری پوجا سنگھل کے ساتھ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی تصویر شیئر کرنے کے معاملے میں فلمساز اویناش داس کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف 17 مارچ کو فیس بک پر ایک مورف شدہ تصویر شیئر کرکے قومی پرچم کی توہین کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، جس میں ایک خاتون ترنگا پہنے نظر آرہی ہیں۔
ویڈیو: 2017میں گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں پیش آئے آکسیجن سانحہ پر ڈاکٹر کفیل خان کی کتاب ‘دی گورکھپور ہاسپٹل ٹریجڈی:اے ڈاکٹرز میموئیر آف اے ڈیڈلی میڈیکل کرائسس’نے اس سانحہ کو ایک بار پھر سے سرخیوں میں لا دیا ہے۔ ڈاکٹر کفیل سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
گجرات میں امت شاہ کی نمائندگی والے لوک سبھاحلقہ گاندھی نگر میں بی جے پی‘گاندھی نگر لوک سبھا پریمیئر لیگ370’یا‘جی ایل پی ایل 370’کے نام سے کرکٹ اور کبڈی ٹورنامنٹ کرانے جا رہی ہے۔ اس کا مقصد زیادہ سےزیادہ نوجوانوں کو پارٹی کی طرف متوجہ کرنا ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کےخلاف درج چارج شیٹ اور کاگنیجنس آرڈر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیےحکومت کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ 29 جنوری 2020 کو یوپی-ایس ٹی ایف نے شہریت قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دسمبر 2019 میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ سی اے اےمخالف ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔
ڈاکٹرکفیل خان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے، جب گورکھپور کے بی آرڈی میڈیکل کالج میں ایک ہفتے کے اندر60 سے زیادہ بچوں کی موت مبینہ طورپر آکسیجن کی کمی سے ہو گئی تھی۔اس واقعہ کے بعد انسیفلائٹس وارڈ میں تعینات ڈاکٹر خان کو سسپنڈ کر دیا گیا تھا۔ وہ لگ بھگ نو مہینے تک جیل میں بھی رہے تھے۔
ڈاکٹر کفیل خان ان 81 لوگوں میں ہیں، جنہیں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جوگیندر کمار کی ہدایت پر گورکھپورضلع کے ہسٹری شیٹرس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خان کے بھائی نے بتایا کہ ان کا نام اس فہرست میں جون 2020 میں ڈالا گیا تھا، لیکن میڈیا سے یہ جانکاری اب شیئرکی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ17دسمبر کونیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے)کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی حراست کو رد کرنے اور انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں دخل اندازی سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر ڈاکٹر کفیل نے دی وائر سے بات چیت کی۔
اتر پردیش پولیس کے ذریعےاین ایس اے کے تحت گرفتار کیے گئے ڈاکٹرکفیل خان کی حراست رد کر انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا، جسے سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بنچ نے خارج کر دیا۔
این سی آربی کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند دلت، آدی واسی اور مسلمانوں کی تعدادملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، ساتھ ہی مجرم قیدیوں سے زیادہ تعدادان طبقات کے زیر غور قیدیوں کی ہے۔ سرکار کا ڈاکٹر کفیل اور پرشانت کنوجیا کو باربار جیل بھیجنا ایسے اعدادوشمار کی تصدیق کرتا ہے۔
گزشتہ سال آکسیجن حادثے کی محکمہ جاتی جانچ میں دوالزامات میں ملی کلین چٹ کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے تھے، لیکن سرکار نے نئےالزام جوڑتے ہوئے دوبارہ جانچ شروع کر دی۔ متھرا جیل میں رہائی کے وقت ہوئی حجت یہ اشارہ ہے کہ اس بار بھی حکومت کا روریہ ان کے لیےنرم ہونے والا نہیں ہے۔
اے ایم یو میں سی اے اے کے خلاف مبینہ‘ہیٹ اسپیچ’دینے کے الزام میں جنوری سے متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان کو ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد منگل دیر رات کو رہا کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اتنے دن جیل میں اس لیے رکھا گیا کیونکہ وہ ریاست کی طبی خدمات کی کمیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پرمتنازعہ بیان دینے کے معاملے میں29 جنوری کو ڈاکٹرکفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پراین ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
گزشتہ 29 جنوری کو اتر پردیش ایس ٹی ایف نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہیں۔
شمال مشرقی دہلی تشدد اوربھیماکورےگاؤں معاملے کی جانچ کرنے والے افسروں سمیت ملک بھر کے 121 پولیس افسروں کو جانچ میں شاندار کارکردگی کے لیےمرکزی وزیر داخلہ کے میڈل سے نوازا گیا ہے۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں متنازعہ بیانات دینے کےالزام میں29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
ویڈیو: ڈاکٹر کفیل خان کو گزشتہ دسمبر میں اے ایم یو میں ہوئے اینٹی سی اےاےمظاہرہ میں مبینہ اشتعال انگیزتبصرہ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ فروری میں انہیں ضمانت ملی لیکن جیل سے باہر آنے کے کچھ گھنٹے بعد ان پر این ایس اے لگا دیا گیا۔ اس بارے میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات دینے کے معاملے میں 29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت قانون (سی اےاے) کےخلاف بیان دینے کے الزام میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان کو 29 جنوری کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ متھرا جیل میں بند خان کو ضمانت مل گئی تھی۔ علی گڑھ کے ایس ایس پی آکاش کلہری نے بتایا کہ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور وہ جیل میں ہی رہیں گے۔
عدالت کے باہر خان کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ خان کو انکاؤنٹرکا ڈر ہے ‘‘کیونکہ ان کے پاس پوری جانکاری ہے کہ بچوں کی موت (اتر پردیش کے ایک میڈیکل کالج میں) کا ذمہ دار کون ہے۔’’
اتر پردیش پولیس نے ڈاکٹر کفیل خان پر آر ایس ایس اورمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے لیےغیر مہذب تبصرہ کرنے، طلبا کو مرکزی حکومت کے شہریت قانون کے خلاف لڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کاالزام لگایا ہے۔