سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ معیشت کا جائزہ لینے کے لیےبلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اپنا آپاکھو بیٹھےتھےاور پٹیل پر بھڑک گئے تھے، کیونکہ پٹیل آر بی آئی کے ریزرو کو استعمال کرنے کے خلاف تھے۔
مرکزی حکومت نے 2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا تھا۔ اس فیصلے کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کے مسئلے کو ختم کرنا تھا۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں 2016 سے 2021 کے درمیان 245.33 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے گئے۔ 2020 میں سب سے زیادہ 92.17 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔
نوٹ بندی پر اکثریت سے الگ اپنے فیصلے میں جسٹس بی وی ناگ رتنا نے مودی حکومت کے اس قدم پر کئی سوال اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے پارلیامنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آر بی آئی نے اس بارے میں آزادانہ طور پر غوروفکرنہیں کیا اور پوری قواعد 24 گھنٹے میں پوری کی گئی۔
ایک میڈیا رپورٹ میں نوٹ بندی کے فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ رہے اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے سینٹرل بورڈ میں اس موضوع پر ڈھنگ سے تبادلہ خیال نہیں کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سوموار کو مودی حکومت کے 2016 میں لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف دائر کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے اس فیصلے کو 4:1 کی اکثریت سے درست قرار دیا تھا۔
مودی حکومت کے 2016 میں نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ نے اسے جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ،ٹیرر فنڈنگ وغیرہ کو ختم کرنا تھا، یہ بات غیر متعلق ہے کہ ان مقاصد کو حاصل کیا گیایا نہیں۔
گزشتہ ماہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کے مرکزی بورڈ کی خصوصی سفارش پر لیا گیا تھا۔ تاہم، آر ٹی آئی کے ذریعے سامنے آنے والے نتائج مرکزی حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش کیے گئے اس حلف نامے کے برعکس ہیں۔
سپریم کورٹ مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج دینے والی متعدد عرضیوں پر سماعت کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ نوٹ بندی کے بارے میں اس نے فروری 2016 میں آر بی آئی کے ساتھ بات چیت شروع کی تھی اور اسی کے مشورے پر یہ فیصلہ لیا گیا۔
مودی حکومت کےنوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی 58عرضیوں کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ سےمرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئےاٹارنی جنرل نے حلف نامہ تیار نہ ہونے کی بات کہتے ہوئے کارروائی ملتوی کرنے کو کہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ آئینی بنچ اس طرح سے کام نہیں کرتی اور یہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے سوال کیا کہ کیا حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا نے 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کی پالیسی کے ذریعے کالے دھن، ٹیرر فنڈنگ اور جعلی کرنسی کو روکنے کے اپنے بیان کردہ مقاصد کو حاصل کرلیا ہے؟
وی ایچ پی کے جوائنٹ جنرل سکریٹری سریندر جین نے کہا کہ ملک کو سیاسی آزادی1947میں ملی لیکن مذہبی اور ثقافتی آزادی رام مندر کی تحریک کے ذریعے حاصل ہوئی۔ جین نے یہ بھی کہا کہ چندے کی مہم نے پورے ملک کو ساتھ لاکر بتایا کہ صرف رام ہی ملک کو متحد کر سکتے ہیں۔ سیکولر سیاست نے صرف ملک کو تقسیم ہی کیا ہے۔
نوٹ بندی کے غیرمتوقع فیصلے کے ذریعے بات چاہے کالے دھن پر روک لگانے کی ہو، معاشی نظام سے سے نقد کو کم کرنے یا ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے کی،اعدادوشمار مودی حکومت کے حق میں نہیں جاتے۔
ایودھیا کے نروانی اکھاڑے کے سربراہ مہنت دھرم داس نے وزارت داخلہ کو نوٹس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیرکے لیے بنا ٹرسٹ غیر قانونی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔ اگر مرکزی حکومت نے عدالت کےاحکامات کے مطابق اس کی تشکیل اورریگولیشن نہیں کیاتو وہ قانون کی مدد لیں گے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر این ایس وشوناتھن سے پہلے گورنر ارجت پٹیل اور ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے مدت کار ختم ہونے سے پہلے ہی اپنا استعفیٰ دے دیا تھا۔
ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لئے ٹرسٹ کے اعلان کے بعد بی جے پی کی سینئر رہنما اوما بھارتی نے کہا کہ 9 نومبر 2019 کے فیصلے کا سہرا سپریم کورٹ کو جاتا ہے، لیکن جن شواہد نے اصل میں اس فیصلے کی بنیاد کو بنایا، وہ ایودھیا میں 6 دسمبر، 1992 کو اپنی جان گنوانے والوں کے نتائج تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ایوان میں اعلان کرنے کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے بتایا کہ ٹرسٹ میں 15 ٹرسٹی ہوںگے، جن میں سے ایک ہمیشہ دلت ہوگا۔وہیں، اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا سے22 کلومیٹر دور روناہی میں زمین دینے کی تجویز کو منظوری دی ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے نئے ڈپٹی گورنر کے طور پر مائیکل دیوورت پاترا کی تقرری گزشتہ سال جولائی میں استعفیٰ دینے والے سابق ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ کی جگہ پر ہوئی ہے۔
کانگریس لگاتار نوٹ بندی کو ایک بڑا گھوٹالہ بتاتی آئی ہے۔ کانگریس ترجمان رندیپ سرجےوالا نے ایک رپورٹ ٹوئٹ کر کے حکومت پر نوٹ بندی کی آڑ میں بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔
ریزرو بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000 روپے اور 500 روپے کے نقلی نوٹوں میں 21.9 فیصدی اور 221 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ وہیں 200 روپے کے نقلی نوٹوں میں 161 گنا کا اضافہ ہوا۔
آر بی آئی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے سینٹرل بینک کے سابق گورنر بمل جالان کی صدارت والی کمیٹی کی سفارشوں کو منظور کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ آر بی آئی نے حکومت کو جو رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے تین گنا زیادہ ہے۔
راجیہ سبھا میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے ذریعے دیے گئے تحریری جواب کے مطابق نوٹ بندی سے پہلے چار نومبر، 2016 تک 17.97 لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی چلن میں تھی، لیکن اب یہ رقم بڑھکر 21.71 لاکھ کروڑ روپے ہو گئی ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے اپنی مدت کار پوری ہونے سے 6 مہینے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2018 میں آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل نے حکومت کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے اپنی مدت کار پوری ہونے سے 9 مہینے پہلے استعفیٰ دے دیا تھا۔
آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری کے جواب میں حکومت نے گورنر کےعہدے کے لئے چھانٹے گئے امیدواروں، تقرری کو لےکر فائل نوٹنگ اور اس بارے میں کابینہ کونسل کے ممبروں، سکریٹری اور دیگر افسروں کے درمیان ہوئے صلاح مشورہ کے بارے میں بتانے سے منع کیا۔
نوٹ بندی سے پہلے 4 نومبر، 2016 تک 17.97 لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی چلن میں تھی، لیکن اب 19.44 فیصدی کے اضافہ کے ساتھ یہ رقم بڑھکر 21.41 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ اقتصادی نظام میں نقدی واپس آ گئی ہے۔
آر ٹی آئی سے ملی جانکاری میں سامنے آیا ہے کہ آر بی آئی ڈائریکٹر بورڈ نے نوٹ بندی کےاثر کو لےکر مودی حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی سے بلیک منی کے مسئلہ پر کوئی پختہ اثر نہیں ہوگا۔
وشو ہندو پریشد کو اپنی رام مندر تحریک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ اس کی مہم سے بی جے پی کو سیاسی فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کو لےکر کسی بھی طرح کی شدت پسندی مودی حکومت کے خلاف جائےگی، اس لئے اس نے مدافعتی رویہ اختیار کرتے ہوئے کچھوے کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں سمیٹ لئے ہیں۔
ویڈیو: آج کی ماسٹر کلاس میں بابری مسجد اور اس کے متنازعہ مقام پر مندر بنائے جانے کے بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ اپوروانندکی بات چیت۔
رام مندر کے لئے آرڈیننس کی مانگکر رہے وشو ہندو پرشد کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ رام مندر لوک سبھا انتخاب میں مدعا بنے، اس لئے انتخاب تک مندر تعمیر کی تحریک کو روکا جا رہا ہے۔
کانگریسی رہنما ہریش راوت نے کہا کہ بی جے پی بےایمان لوگوں کی پارٹی ہے، جن کو نہ تو پالیسیوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی مریادہ کی، وہ مریادہ پرشوتم رام کے بھکت کیسے ہو سکتے ہیں۔
نریندر مودی کے ذریعے رام مندر پر آرڈیننس کو لےکر دیے گئے بیان پر وشو ہندو پریشد نے کہا کہ رام مندر پر فیصلے کے لئے ابدی انتظار نہیں کر سکتے ہندو۔ شیوسینا نے کہا کہ کیا مودی کے لئے قانون بھگوان رام سے بھی بڑا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو دیے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا معاملے کی سماعت میں تاخیر کے لئے کانگریسی رہنماؤں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
پہلے بھی مرکزی حکومت کے قریبی مانے جانے والے افسر آر بی آئی تک پہنچے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی آواز کو آزاد رکھا۔ کیا شکتی کانت داس ایسا کر پائیںگے؟
گجرات کے وزیر صحت رہ چکے جئے نارائن ویاس نے ریزرو بینک کے نئے گورنر شکتی کانت داس کی تعلیمی صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے حساب سے بینک کا چیف ایک اہل ماہر اقتصادیات ہونا چاہیے۔
مالیاتی کمیشن کے ممبر شکتی کانت داس اقتصادی معاملوں میں سکریٹری ، سکریٹری آف ریونیو اور فرٹیلائزرس سکریٹری رہ چکے ہیں۔
ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا کہ ارجت پٹیل کا استعفیٰ باعث تشویش ہے ۔ پورے ملک کو اس بات کو لے کر فکرمند ہونا چاہیے۔
پچھلے کچھ وقتوں سے مرکز کی مودی حکومت اور ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل کے بیچ کشمکش جاری تھا۔ارجت پٹیل نے اس استعفیٰ کی وجہ کو نجی بتایا ہے۔
اگر کل ممکنہ این پی اے کا تقریباً40 فیصد 10 کے قریب بڑے کاروباری گروپوں میں پھنسا ہوا ہے، تو بینک اس کا حل کئے بغیر قرض دینا شروع نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات واضح ہے لیکن حکومت بڑے بقائے والے بڑے کاروباری گروپوں کے لئے الگ سےاصول چاہتی ہے، جو ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہوں۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے فنڈز ملک کی سماجی جائیداد ہیں اور مفاد عامہ کا حوالہ دےکر من مانے طریقے سے ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ڈپارٹمنٹ آف اکانومک افیئرس(ڈی ای اے)کے سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے کہا ہے کہ حکومت آر بی آئی سے 3.6لاکھ کروڑ روپے کی مانگ نہیں کر رہی ہے۔
نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کی کل پونجی 9.59 لاکھ کروڑ روپے کا تقریباً ایک تہائی حصہ مانگا تھا۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے بیچ گل چھرے اڑا سکے۔