آر بی آئی کے سابق ڈپٹی گورنر وِرل آچاریہ نے اپنی کتاب ‘کویسٹ فار ریسٹورنگ فنانشیل اسٹیبلیٹی ان انڈیا’ کی حالیہ اشاعت کے نئے دیباچے میں یہ جانکاری دی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 2020 میں شائع ہوئی تھی۔ اس تجویز نے ظاہری طور پر آر بی آئی اور حکومت کے درمیان دراڑ پیدا کر دی تھی۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر این ایس وشوناتھن سے پہلے گورنر ارجت پٹیل اور ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے مدت کار ختم ہونے سے پہلے ہی اپنا استعفیٰ دے دیا تھا۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے نئے ڈپٹی گورنر کے طور پر مائیکل دیوورت پاترا کی تقرری گزشتہ سال جولائی میں استعفیٰ دینے والے سابق ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ کی جگہ پر ہوئی ہے۔
آر بی آئی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے سینٹرل بینک کے سابق گورنر بمل جالان کی صدارت والی کمیٹی کی سفارشوں کو منظور کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ آر بی آئی نے حکومت کو جو رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے تین گنا زیادہ ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے اپنی مدت کار پوری ہونے سے 6 مہینے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2018 میں آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل نے حکومت کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے اپنی مدت کار پوری ہونے سے 9 مہینے پہلے استعفیٰ دے دیا تھا۔
آرٹی آئی کے تحت ریزرو بینک سے ڈیفالٹروں کے نام کی جانکاری مانگی گئی تھی۔
پہلے بھی مرکزی حکومت کے قریبی مانے جانے والے افسر آر بی آئی تک پہنچے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی آواز کو آزاد رکھا۔ کیا شکتی کانت داس ایسا کر پائیںگے؟
گجرات کے وزیر صحت رہ چکے جئے نارائن ویاس نے ریزرو بینک کے نئے گورنر شکتی کانت داس کی تعلیمی صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے حساب سے بینک کا چیف ایک اہل ماہر اقتصادیات ہونا چاہیے۔
مالیاتی کمیشن کے ممبر شکتی کانت داس اقتصادی معاملوں میں سکریٹری ، سکریٹری آف ریونیو اور فرٹیلائزرس سکریٹری رہ چکے ہیں۔
ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا کہ ارجت پٹیل کا استعفیٰ باعث تشویش ہے ۔ پورے ملک کو اس بات کو لے کر فکرمند ہونا چاہیے۔
پچھلے کچھ وقتوں سے مرکز کی مودی حکومت اور ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل کے بیچ کشمکش جاری تھا۔ارجت پٹیل نے اس استعفیٰ کی وجہ کو نجی بتایا ہے۔
اگر کل ممکنہ این پی اے کا تقریباً40 فیصد 10 کے قریب بڑے کاروباری گروپوں میں پھنسا ہوا ہے، تو بینک اس کا حل کئے بغیر قرض دینا شروع نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات واضح ہے لیکن حکومت بڑے بقائے والے بڑے کاروباری گروپوں کے لئے الگ سےاصول چاہتی ہے، جو ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہوں۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے فنڈز ملک کی سماجی جائیداد ہیں اور مفاد عامہ کا حوالہ دےکر من مانے طریقے سے ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ڈپارٹمنٹ آف اکانومک افیئرس(ڈی ای اے)کے سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے کہا ہے کہ حکومت آر بی آئی سے 3.6لاکھ کروڑ روپے کی مانگ نہیں کر رہی ہے۔
نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کی کل پونجی 9.59 لاکھ کروڑ روپے کا تقریباً ایک تہائی حصہ مانگا تھا۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے بیچ گل چھرے اڑا سکے۔
آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7 کا استعمال مفاد عامہ میں نہیں ہے-یہ موقع کےتلاش میں بیٹھے کاروباریوں کو آر بی آئی کے ذریعے پیسہ دینے کے لئے مجبور کرنے کے ارادے سے اٹھایا گیا ایک بےشرمی بھرا قدم ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ کسی بھی ملک کے سینٹرل بینک کی خود مختاری میں دخل نہیں دیا جانا چاہیے۔