خبریں

آر بی آئی نے 2018 میں عام انتخابات سے قبل مرکز کو 3 لاکھ کروڑ روپے دینے کی تجویز ٹھکرا دی تھی: آچاریہ

آر بی آئی کے سابق ڈپٹی گورنر وِرل آچاریہ  نے اپنی کتاب ‘کویسٹ فار ریسٹورنگ فنانشیل اسٹیبلیٹی ان انڈیا’ کی حالیہ اشاعت کے نئے دیباچے میں یہ جانکاری دی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 2020 میں شائع ہوئی تھی۔ اس تجویز  نے ظاہری طور پر آر بی آئی اور حکومت کے درمیان دراڑ پیدا کر دی تھی۔

وِرل آچاریہ۔ (تصویر بہ شکریہ: MeJudice/CC BY 3.0/Wikimedia Commons)

وِرل آچاریہ۔ (تصویر بہ شکریہ: MeJudice/CC BY 3.0/Wikimedia Commons)

نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق ڈپٹی گورنر وِرل آچاریہ نے اپنی کتاب ‘کویسٹ فار ریسٹورنگ فنانشیل اسٹیبلیٹی ان انڈیا’ کے نئے دیباچے میں کہا ہے کہ 2018 میں لوک سبھا انتخابات سے قبل بینک نے ماقبل انتخابی اخراجات کے لیے اپنی  بیلنس شیٹ سے 2-3 لاکھ کروڑ روپے نکالنے کی حکومت کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔

نیوز ویب سائٹ منٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، آچاریہ نے یہ معلومات کتاب کےحالیہ ایڈیشن کے نئے دیباچے میں درج کی ہیں ۔ یہ کتاب پہلی بار 2020 میں شائع ہوئی تھی۔

اس تجویز نے ظاہری طور پرآر بی آئی اور حکومت کے درمیان دراڑ پیدا کردی تھی۔ آچاریہ نے پہلی بار 2018 کے اواخر میں اےڈی شراف میموریل لیکچر میں خطاب کرتے ہوئے اس موضوع پر بات کی  تھی۔

انہوں نے دیباچےمیں کہا ہے، ‘ بیوروکریسی اور حکومت میں تخلیقی اذہان’ نے گزشتہ حکومتوں کے دور میں آر بی آئی کی طرف سے جمع کی گئی خاطرخواہ  رقم کو موجودہ حکومت کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

آچاریہ نے کہا کہ ہر سال مرکزی بینک (آر بی آئی) اپنے منافع کا ایک حصہ حکومت کو تقسیم کرنے کے بجائے الگ رکھ دیتا ہے اور نوٹ بندی سے پہلے تین سالوں میں بینک نے سرکار کوریکارڈ منافع منتقل کیا تھا۔

ویب سائٹ کے مطابق، انہوں نے کہا  ہےکہ نوٹ بندی کے سال کے دوران نوٹوں کی چھپائی کے اخراجات نے مرکز کو منتقلی کم کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 2019 کے انتخابات سے قبل حکومت کا مطالبہ (بینکوں سے 2-3 لاکھ کروڑ روپے نکالنے کا) ‘شدید’ ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ آر بی آئی کی جانب سےمؤثر طریقے سے مالیاتی خسارے کا بیک ڈورسے منیٹائزیشن کو یقینی بنانے کی ایک  کوشش تھی۔

آچاریہ نے کہا، ‘انتخابی سال میں (حکومت) عوام کو لبھانے والے اخراجات میں کٹوتی کیوں کرے، جب آر بی آئی کی بیلنس شیٹ سے اخراجات کو  نکالا جا سکتا ہے اور بڑھتے  ہوئےمالیاتی خسارے کو لازمی طور پر منیٹائز کیا جا سکتا ہے؟’

آر بی آئی پر دباؤ ڈالنے کی ایک اور وجہ ڈس انویسٹمنٹ ریونیو (سرکاری ملکیت والی کمپنیوں کی نجکاری سے ملنے والا پیسہ )بڑھانے میں حکومت کی ناکامی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کی کمی کو آر بی آئی سے منتقلی کے ذریعے پورا کیا جانا اب یہ ایک سالانہ  چلن  بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘جب آر بی آئی نے (پیسے کی) منتقلی کی درخواستوں کی تعمیل نہیں کی، تو حکومت کے اندر ایک تجویزمیں ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ7 کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا، جو حکومت کو آر بی آئی کے گورنر کے ساتھ مشاورت کے بعد (اس معاملے پر غور کرنے کے لیے)  بینک کو عوامی مفاد میں ضروری ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔’

اس دفعہ کو نافذ کرنا آر بی آئی کی 80 سالہ تاریخ میں ایک غیرمعمولی  قدم تھا۔تاہم، آر بی آئی کے اس وقت کے گورنر ارجت پٹیل نے اپنی تین سالہ مدت کی تکمیل سے نو ماہ قبل استعفیٰ دینے کی ذاتی وجوہات کا حوالہ دیا تھا، لیکن ان رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے آر بی آئی کواپنی خود مختاری پر دباؤ کا سامنا کرنے کے درمیان یہ قدم اٹھایا گیا تھا۔

منٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، آچاریہ نے کتاب کے حالیہ ایڈیشن میں دلیل دی ہے کہ ‘عوامی مفاد’ کے معاملات پر بند دروازوں کے پیچھے بات کرنے کے بجائے کھلی بحث کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا، اس طرح کی منتقلی کی ایک قابل ذکر مثال 2020 میں وبائی مرض کے دوران آر بی آئی  کی جانب سے اٹھایا گیا قدم تھا، جو مناسب تھا۔

آر بی آئی نے مالی سال 2023 میں حکومت کو 87416 کروڑ روپے ڈیویڈنڈ ادا کیا۔ اس سے پہلے اس نے مالی سال 2022 میں 30,307 کروڑ روپے ادا کیے تھے۔

وِرل آچاریہ نے جون 2019 میں، مانیٹری پالیسی ڈپارٹمنٹ کے انچارج ڈپٹی گورنر کے طور پر اپنی تین سالہ مدت کار سے چھ ماہ قبل عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا  تھاکہ بینکوں کے اختیار کو کمزور کرنے والی کسی بھی سرکار کو مالیاتی منڈیوں کے قہراور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومتیں عام انتخابات سے قبل مجموعی اخراجات بڑھادیتی ہیں۔ 2018 میں آئی منٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وہ اکثر انتخابات سے پہلے سبسڈی اور ٹرانسفرز پر نسبتاً زیادہ خرچ کرتی ہیں۔

تاریخی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر مرکزی حکومتوں نے عام انتخابات سے ایک سال پہلے مالیاتی توسیع (حکومت کے اقدامات کی وجہ سے مالی اخراجات میں اضافہ) کا سہارا لیا ہے۔

ہندو بزنس لائن نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حالاں کہ، مرکز کی طرف سے اپنے مالیاتی خسارے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے آر بی آئی کے خزانے میں پیسہ ڈالنا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور یہ بہت سے ماہرین اقتصادیات اور مارکیٹ کے کھلاڑیوںکو پسند نہیں آیا ہے۔

سال 2019 میں آر بی آئی نے اب تک کا سب سے بڑا سرپلس 1.76 لاکھ کروڑ روپے حکومت کو منتقل کیا تھا۔ یہ آر بی آئی کے سابق گورنر بمل جالان کی سربراہی میں ایک کمیٹی کی سفارش کے مطابق تھا، جو یہ فیصلہ کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ مرکزی بینک کے پاس کتنے سرمایے کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔)