فکر و نظر

جمہوریت میں شہریوں کی ترجیحات

جمہوریت  شہریوں کے مذہبی امور میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی ۔ مذہب کو ذاتی سطح پر جیا جا سکتا ہے۔ لیکن مذہب کو اس طرز پر جیا جانا چاہیے جس پر بھارت کے معروف  ریاضی داں رامانجن نے جیا، بےحد روحانی لیکن بےعیب۔

original-preamble-indian-constitution

دسمبر 1885 میں کانگریس کی تنصیب ہوئی تھی۔ کانگریس کی تنصیب  میں انگریز افسر اے. او.  ہیوم اور 72 دیگر سیاسی کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جہاں تک جمہوریت کی بنیاد  پر کھڑے  ‘نئے ہندوستان ‘  کا سوال ہے، اس کا کنکریٹ، روڑہ، سریا  اور سیمنٹ وغیرہ سب کچھ دسمبر 1885 سےجٹانا شروع کر دیا گیا تھا ؛  بھلے ہی آج کی موجودہ حکومت ” نیو انڈیا ” کے نام پر سب کچھ  بھنانے میں جٹی ہو۔ نہرو رپورٹ میں موتی لال نہرو کا علم فلسفہ، جواہرلال نہرو کی  سیکڑوں تقریر یں  اور مہاتما گاندھی کے ‘ ہند سوراج ‘ اور ‘ انڈیا آف مائی ڈریمز ‘ جیسے  سیکڑوں دستاویزوں میں اس کی جھلک ملتی ہے۔

یہاں ان سب باتوں کو اس لئے دوہرا رہا ہوں کیونکہ موجودہ ماحول میں ہندوستانی جمہوریت عقیدہ، نام نہاد عوامی ضمیر (public conscience)، باباپرستی، رہنماپرستی اور اندھ بھکتی  کے جس غیرعقلی  گیس چیمبر میں گھٹ گھٹ کے سانس لے رہا ہے، وہ  فطری  نہیں ہے۔ ملک کی عوام کا بڑا حصہ خود کو ہر چیز کے آگے وقف کر بیٹھا ہے، سواۓ جمہوریت کی ” سائنسی ساخت  ” کے! ہمارا عقیدہ ملک کے جمہوری اصولوں کے علاوہ ہر بیکار کی رائے، چیز یا آدمی میں ہے اور اس عقیدہ میں کہیں مذہب کا دخل ہوتا ہے اور کہیں نہیں۔

تاریخی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تو ہندوستانی عوام میں غیرعقلی  موافقت کا کافی اثر رہا ہے۔ مغرب میں ہندوستان کو جادوگروں  اور سپیروں کے  ملک کی شکل میں جانا جاتا رہا ہے۔ اسطوری کہانیاں ہماری زندگی میں بری طرح پیوست ہیں۔ جب کانگریس کی تشکیل ہوئی تو اس کی تنصیب  کو لےکر بھی ایک اسطوری کہانی جُڑ گئی  اور   وہ یہ تھی  کہ اس کی تنصیب کے پیچھے  ہمالہ  میں رہنے والے باباؤں کا ہاتھ ہے۔ یہ حقیقت باقاعدہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے اور ‘ سیفٹی والو ‘ یا ‘ حفاظتی والو ‘ کے مفروضہ کی شکل میں مشہور ہے۔ حالانکہ اس اسطوری کہانی کی تردید مورخ بپن چندرا اور معاون مورخوں  نے اپنی اسی کتاب میں تفصیلی طور پر کی ہے جس کو لےکر فسطائیوں نے گزشتہ سالوں میں بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کے لئے لفظ ‘ انقلابی دہشت گرد ‘ کا استعمال کئے جانے پر ہنگامہ کیا تھا۔

ہمارے ملک میں اسطوری کہانیاں کا خاصہ دخل رہا ہے ۔ یہ دخل اس وقت سب سے خطرناک ثابت ہوتا ہے جب سائنس اور دلیل کی بنیاد پر کھڑی جمہوریت میں عدلیہ بھی نام نہاد عوامی ضمیر  یا جھوٹے عقیدہ کی بنیاد پر فیصلے دینے لگ جائے۔ ہندوستان میں ہمیشہ سے موجود رہے ان اسطوریوں اور جھوٹے عقیدوں کے بارے میں ہیگل، کارل مارکس اور فریڈرک اینجلس جیسے مفکرین نے بہت کچھ لکھا ہے جس کی تفصیل ‘ کارل مارکس آن انڈیا (علی گڑھ ہسٹورئن سوسائٹی / تولیکا بکس) ‘ نامی کتاب میں ملتا ہے۔ اس تالیف میں عقیدہ یا اندھی تقلید (اندھ بھکتی) کے نام پر انسانی قربانی (بلی)  جیسی دریافت کو غیرسائنسی اور غیرمنطقی بتایا گیا ہے۔

مغربی مفکرین اور فلسفیوں کے علاوہ ہندوستانی سماج مصلحین نے آزادی کی جدو جہد کے دوران بڑے پیمانے پر سائنس کے فروغ  پر کام کئے۔ راجا رام موہن رائے، ایشورچندر ودیاساگر، سر سیّد احمد خان، جواہرلال نہرو جیسوں کی ایک طویل فہرست بنائی جا سکتی ہے۔ یہ لوگ اس سمت میں اس لئے کام کر رہے تھے کہ جب انگریزوں سے ہمیں آزادی ملے‌گی اور ہمارے ملک کی باگ ڈور خود ہمارے ہاتھوں میں آئے‌گی تو ہمارے پاس اختیاری حکومتی نظام کی شکل میں کیا ہوگا اور ہمارا سماجی و اقتصادی ڈھانچہ کس طرح کا ہوگا؟ 1938 میں انڈین  سائنس کانگریس کے پچیسویں سالگرہ/سلور جوبلی اجلاس میں سائنس داں کو خطاب کرتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کہا تھا، ‘ ہمیں جدید ہندوستان کی تعمیر سائنسی بنیاد پر کرنی ہے ‘۔ لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم اسی ہندوستان میں جی رہے ہیں جس کا تصور ہمارے بزرگوں نے کیا تھا! ماہر عمرانیات میکس ویبر نے ریاست کی تصویر  کو اس کسوٹی پر پرکھا  ہے کہ یہ جانچا جائے کہ اس کی قوت، اختیارات اور جواز (Power, Authority, Legitimacy) کس طرح کی ہے۔ ان کے مطابق یہ تین قسم کی ہو سکتی ہے۔

پہلا، روایتی جس میں اقتدار قبضہ ایک ہی خاندان کی نسلوں میں آگے بڑھتا ہے، جہاں معاملے آبائی یا جدّی  ہوتے ہیں۔ دوسرا، کرزما پر مبنی،  یعنی کسی شخص کی نقل وحرکت، سماج میں عزت وشہرت اور اس کی بنا پر اس کی  کورانہ تقلید۔ فسطائی ہٹلر، مسولینی اسی کے سہارا پنپے تھے۔ تیسرا، منطقی اور عقلی ۔ دنیا کی  تقریباً  ہر جدید جمہوریت ویبر کے ذریعے توضیح شدہ اسی تیسرے زمرے میں اتی  ہے جہاں نوکرشاہی اور بادشاہی دونوں منطق اور سائنس پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہندوستان سمیت دیگر جمہوریت کی ترغیب اور مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے، ‘ سائنس پر مبنی فلاح و بہبود کی  ریاست ‘ کی تنصیب کرنا۔ اس طرح کے نظام میں حکومت-انتظامیہ کی ساری توانائی کا ماخذ، مرکز اور منزلِ مقصود صرف ” عوام ” ہوتے ہے۔ ریاست کے تمام امور میں عوام کو اولیت حاصل    ہوتی ہے۔ آئین اور آئینی ادارے عوام کی بھلائی کے لئے ہی بنتے ہیں۔ حکومتیں آئین کے مطابق ریاست کے استحکام میں کام کرتی ہیں اور عوامی خدمات اور  عوامی فلاح وبہبود کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا کام جمہوریت میں نہیں ہوتا ہے۔ جمہوریت میں ووٹروں  اور عوامی-نمائندوں کے درمیان بیلٹ پر ایک قسم کا  معاہدہ ہوتا ہے جو ریاست یا حکومتوں کے ذریعے عوامی مفاد عامہ میں خدمات انجام دینے پر منحصرکرتا ہے۔ ایک مثالی جمہوریت میں یقین، مذہب، انفرادی نقل و حرکت کی سماجی مداخلت اس کو برباد کر دیتی  ہے۔ لیکن ہندوستان میں حالات ایک دم برعکس ہیں ۔

حال ہی میں ڈیرہ سچّا سودا کے سربراہ  بابا رام رحیم کو عصمت دری کے  کیس میں سی بی آئی کی عدالت کے ذریعے قصوروار ٹھہرائےجانے کے بعد ان کے پیروکاروں کے ذریعے توڑپھوڑ اور ہنگامہ کرنا جمہوریت کے برے تجربات میں سے ایک ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آج کل بہت سی خبریں اور تصویریں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ بابا رام رحیم اقتدار کے گلیاروں یا حکمرانوں  کے کافی قریب رہے ہیں۔ بابا اور سیاستدانوں کی موافقت سے جو حاصل ہوتا ہے وہ بھلے ہی دونوں شراکت داروں کے لئے سودمند ہو لیکن جمہوریت کے لئے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔  اس پر  بابا کی حمایت میں کچھ  پارلیامانی رکن / رہنماؤں کا بولنا اور ان کے ذریعے عدالت کو دنگا فساد کے لئے ذمہ دار ٹھہرانا دکھاتا ہے کہ جمہوریت کس سمت میں جا رہی ہے۔ اسی طرح ریاست کے ذریعے پیش کردہ خدمات اور سہولتوں کا زوال، ریل حادثات کا سلسلہ، نوٹ بندی کے برے نتائج و انجام، گورکھ پور میں بچّوں کی موتوں پر ہماری حکومتوں کا غیرذمّہ دارانہ رویہ۔ یہ سوال کھڑے کرتا ہے کہ آخر ہماری حکومتیں کس بنیاد پر اور کس کے حق میں کام کر رہی ہیں؟ ان کے یہاں شہری کو ترجیح کیوں نہیں دی جا رہی ہے اور اتنے بڑے سروس ویکیوم کے باوجود بھی سِول سوسائٹی، عوام اور عدالت وغیرہ سرکار کی جوابدہی قائم کرنے میں کیوں لاچار ہیں؟

بیماری بڑی ہے۔ جمہوریت کے منطقی اصولوں کو جلاوطنی دی جا چکی ہے۔ دیانتداری، عقیدہ اور کورانہ تقلید کے چلن نے شاہی حکومت سے ٹانکا جوڑ لیا ہے۔ دیانتداری کا  جمہوریت کی بڑی بھیڑ پر وسیع تسلط ہوتا ہے جو بعد میں رہنماؤں کو شاہی حکومت کے گلیاروں میں پہنچاتی ہے۔ دیانتداری کے چنگل میں پھنسے شہری اس صورت میں بےخوف نہیں ہوتے ہیں جس طرح ربیندرناتھ ٹیگور نے اپنی نظم  ‘ فریڈم ‘ میں “نئے بھارت ” کے لئے مطالبہ کیا  تھا۔ اپنے عوامی نمائندہ کے انتخاب کے بعد بھی وہ باباوؤں کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ وہ ووٹ ڈالنے سے پہلے بھی باباوؤں سے مسئلہ کا حل ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور ووٹ ڈالنے کے بعد بھی انہی باباوؤں کے پاس جاتے ہیں جبکہ ان کو پتا ہونا چاہئے کہ جمہوریت میں شہریوں کے مسائل کا حل کرنا حکومت کا اکلوتا فرض ہے۔ اور یہ کہ دل کی بیماری یا گردہ کی خرابی میں بابا  نہیں بلکہ حکومت ہسپتالوں کے ذریعے شہریوں کی فکر کرے‌گی۔

ریاست میں حکومت اور شہریوں کا تعلق قانونی ، منطقی اور عقلی  بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ کرزما، نقل و حرکت یا ذاتی رسوخ پر نہیں۔ ستّر کی دہائی سے پنپنے والی غیرجمہوری رجحانات نے ہندوستانی جمہوریت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ نریمبرگ ریلیوں میں نازی حامی بھیڑ میں ‘ ہٹلر جرمنی ہیں اور جرمنی ہٹلر ہے ‘ کے نعرے لگائے جاتے تھے۔ اسی طرح کی باتوں کا دور ہندوستان میں بھی آیا جس میں ایک شخصیت میں ہی جمہوریت کی لامحدود تخلیقی قوت کو متحد کرکے مشہور کیا گیا۔ اس کی وجہ سے ہندوستان میں رہنما-پرستی کا ایک دور شروع ہوا جو پھر  بعد میں فسطائی قوتوں کے ‘ منطقی مخالف’ رویوں سے زیادہ طویل ہوتا گیا۔ چوراسی، بابری مسماری، گودھرا، مظفرنگر، دابھولکر-پنسرے کی ہلاکتیں اسی سلسلے کی چھوٹی-چھوٹی کڑیاں ہیں جس میں کسی خاص پارٹی کا رول نہیں ہے، بلکہ تمام ذمہ دار ہیں۔ سبھی کے باباوؤں سے تعلق رہے ہیں۔ عوام رہنماوؤں سے مذہب، ذات یاعلاقائی بنیادوں پر جُڑنے  لگی اور آئین کی جو کڑی ہمیں دی گئی تھی  وہ  بھلا دی گئی۔ جو مقصد آئین نے بنیادی حقوق، پالیسی-رہنمائی عناصر اور بعد میں بنیادی فرائض میں درج کیے تھے وہ گمراہ ہو گئے۔

نام نہاد  ” سماج واد ” کے نام سے آنے والی حکومت اتّر پردیش کے مظفرنگر میں فرقہ وارانہ تشدد کو نہیں روک پاتی ہے اور لا اینڈ آرڈر کی بدانتظامی کو ٹھیک کرنے کے بجائے حکومت میں بیٹھے لوگ معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کی ڈھُل مُل باتیں کرتے رہے! آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت متاثرین کو ملے ” زندگی کے حق ” سے محروم رہنا پڑا ؛ اس پر اسی آرٹیکل کے تحت ” باعزت زندگی ” کی تو بات ہی بھول جائیے! ٹھیک اسی طرح کا معاملہ گورکھ پور میں بچّوں کی اموات پر سامنے آتا ہے۔ لیکن سیاسی رہنما کو بابا کی گرفتاری میں بھارتیہ سنسکرتی  کا زوال نظر آتا ہے، معصوموں کی موت میں نہیں۔ ان کے پاس اگست (یعنی بھادوں) کے مہینے میں بچّوں کے مرنے کی باتیں تو ہیں لیکن اسی بھادوں کے مہینے میں اسی ملک کے اسی ریاست میں شری کرشن کی پیدائش کو وہ بھلا دیتے ہیں اور افسوس کہ اس پر ان کے پیروکار ان سے سوال نہیں پوچھتے! ان سے یہ نہیں پو چھتے کہ رہنما صاحب آپ تو اگست میں بچّوں کے مرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن ہندوستان میں ہر زمانے میں مذہب اور انصاف  کے قیام کی قسم دینے والے شری کرشن تو اسی مہینے میں پیدا ہوتے ہیں!!

اترپردیش میں سنبھل، مسلم-اکثریت والا علاقہ ہے۔ یہاں 78-80 فیصد تک مسلم ہیں۔ تاریخی اعتبار سے سنبھل کو ویدوں میں جگہ ملی ہے، قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں یہ پرتھوی راج چوہان کی راجدھانی رہی ہے، مغل اور انگریزوں کے عہد میں کاروبار کا بڑا مرکز بھی۔ سنبھل میں سیاسی قیادت کے لئے دو رہنماؤں میں جنگ رہتی ہے جن میں ایک قانون سازمجلس میں ‘ وندےماترم ‘ نہ گانے کو لےکر کافی مشہور ہوئے تھے۔ دوسرے رہنما موجودہ ایم ایل اے  میں سماجوادی پارٹی(سپا) کے ممبر ہیں۔ انتخابی دور میں شہر کے  عوام، جن  کا منطق سے شاید کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا ہے، پورے جوش سے خصوصاً : انہی دو طبقوں میں بٹ جاتے  ہیں۔ لوک سبھا – قانون ساز مجلس آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن علاقے کی 80 فیصد ‘ مسلم ‘ عوام کو ان کے ‘ مسلم ‘ رہنما آزادی کے ستّر سال بعد تک بھی ایک ایسا کالج نہیں دے پائے ہیں جہاں علاقے کے جوان، بالخصوص لڑکیاں، سائنس میں ایم ایس  سی کر پائیں۔ ان کو ایم ایس سی کرنا ہوتا ہے تو وہ پینتیس اور تیس کلومیٹر دور مرادآباد اور چندؤسی جاتے ہیں۔ جدید علاج، ٹراما سینٹر ، ڈائلسس یونٹ، وینٹیلیٹر کی تو بات ہی مت کیجئے! افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خود کو منطق کا علمبردار اور کسان-مزدور کا حمایتی کہنے والے کمیونسٹ لیڈران   بھی کبھی مغربی اترپردیش کی  طرف نظر نہیں ڈالتے۔ بایاں بازو  گنگا کے میدانوں میں کسانوں کے حقوق کی پروا نہیں کرے‌گا تو پھر کہاں کرے‌گا؟ ایسے میں عوام کے پاس اختیار کہاں سے آئے؟

دلیل، قانون، خدمات نفاذ اور دیگر جمہوری اصولوں کے علاوہ کسی دوسری ‘ بے بنیاد سی بنیاد ‘ پر کھڑی جمہوریت شہریوں کو کبھی فائدہ نہیں پہنچائے‌گی۔ شہریوں کو ان ترجیحات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ جمہوریت  شہریوں کے مذہبی امور میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی ۔ مذہب کو ذاتی سطح پر جیا جا سکتا ہے۔ لیکن مذہب کو اس طرز پر جیا جانا چاہیے جس پر بھارت کے معروف  ریاضی داں رامانجن نے جیا، بےحد روحانی لیکن بےعیب۔ وہ ریاضی میں تحقیق کے لئے کیمبرج یونیورسٹی ، لندن  جاتے ہیں تو سمندر پھلانگنے پر مذہب کے درہم ہونے والے تصوّر  کو  نامنظور کرتے ہوئے جاتے ہیں اور زندگی کے آخر تک بڑے عقیدے کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ریاضی میں میری مہارت اور کارکردگی روحانی  عقیدہ کی وجہ سے ہے۔ یہ سب خدائی ودیعت ہے۔

(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات  میں علوم نظام عامّہ  میں تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ ‘عوام انڈیا ‘کے  بانی مدیر ہیں۔)