ادبستان

چھٹھ :خیر سگالی کا تہوار

صبح کی اذان سے پہلے پوجا کا سامان سر پر اٹھاکر ہم مسلمانوں کے محلے سے گزرتے تھے،وہ وضو کرتے ہوئے ہماری طرف پیار سےدیکھتے تھے۔

Chhat_PTIدنیا بھر کی تہذیبیں ندیوں کے کنارےپھلی پھولی ہیں۔ کہاوت ہے بن پانی سب سون۔ مذہب بھی پانی کے بغیر مذہب نہیں  ہے۔ ہندو گنگا جل سے عقیدت رکھتے  ہیں، مسلمان زم زم کے مقدس پانی سے۔ ندیوں کے کنارے مندر،مسجد اورگرجا بنے ہیں۔ بہاراور اترپردیش کا ایک سماجی تہوار ہے، چھٹھ؛ سورج کی روشنی اور پانی کی عظمت کے حوالے سے یہ واحد عوامی تہوار ہے،جو ندیوں کے کنارے منایا جاتا ہے۔

سنہ 47 کی تقسیم کے بعد ماحول کتنا بھی پراگندہ رہا ہو،آپسی اعتمادچھٹھ جیسے تہوار کے عام اخلاقی اطوار،مذہب کے آپسی رشتوں کو مضبوط بناتے رہے۔ میں بھول گیا تھا کہ بہار کے کئی علاقوں میں مسلمان بھی چھٹھ تہوار مناتے رہے ہیں۔ لیکن امیتابھ ایس ورما اور شروتی انندتا ورما کا یہ میوزک ویڈیو دیکھنے کے بعد یاد آتاہے کہ سماج کی ساجھی وراثت آپس میں کتنی گندھی ہوئی ہے اور تمام سیاسی کوششوں کے بعد بھی انسان کے اندر سے اس کا دل نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد سماج پر اور اس کی پختہ بنیاد پر یقین مضبوط ہوتا ہے۔

اس ویڈیو کو یوٹیوب پر شیئر کرتے ہوئے میکرس نے گاندھی کے چمپارن ستیہ گرہ کو یاد کیا ہے۔ چمپارن ہی وہ جگہ تھی، جہاں سے گاندھی نے آزادی کے لئے ستیہ گرہ کا اپنا سفر شروع کیا تھا۔ نیل کی زراعت کے خلاف عظیم الشان صف بندی ہوئی تھی۔ آج اس تحریک کے سو سال ہو گئے، لیکن گاندھی کی گونج اب بھی جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ کون تھے گاندھی؟ گاندھی وہ تھے جو آزادی کے ادھورے جشن کے سائے میں ہندو مسلم فسادات کی آگ میں جھلس رہے ملک کے لئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے تھے۔

 جو قوم آپس میں روٹیاں بانٹ‌کر کھاتی تھی ،ہولی اور عید ساتھ ساتھ مناتی تھی، ان کی جدائی کی بڑی قیمت ہماری آزادی کو چکانی پڑی تھی۔ ان سب کے بعد بھی ساجھا اطوار اور ہماری اخلاقیات بچی  رہی۔ مزار پر ہندوؤں کا چادر چڑھانا اور مندروں میں مسلمانوں کا سیس جھکانا باقی رہ گیا۔ محرّم میں ہندو گھروں کے آگے سے داہا (تعزیہ)نکلنا اوررام نومی میں مسلمان محلّوں سے جلوس کا نکلنا قائم رہا۔ ہندوستان کی یہی خوبی پوری دنیا کے لئے مثال رہی ہے۔ آج اس خوبی کو سولی پر ٹانگنے کی تیاری چل رہی ہے۔

عدم اعتماد کا زہر بہار میں بھی پھیلا تھا۔ بٹوارے میں ہزاروں کنبے ، جگہ و زمین چھوڑ‌کر پاکستان چلے گئے۔ ساسارام سے زاہدہ حنا کی فیملی اور دربھنگہ سے پروین شاکر کی فیملی کراچی جاکر بس گئی۔ لیکن جو بچے، وہ اس یقین سے قائم رہے کہ پڑوسی کچھ بھی ہو سکتا ہے، قاتل نہیں ہو سکتا۔ چھٹھ جیسے تہوار اس یقین کا تصدیق نامہ ہیں۔

 میری یادوں میں چھٹھ کی کثیررنگی فضائیں ہیں۔ پوجا کا سامان سر پر اٹھاکر ہم مسلمانوں کے محلے سے گزرتے تھے اور صبح کی اذان سے پہلے وضو کرتے وقت انہیں ہماری طرف پیار سے مسکراتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ندی کے کنارے جب ہم پھلجھڑی چھوڑتے تھے، تب وہ کنارے کھڑے ہوکر ہمارا جوش بڑھاتے تھے۔ اس میوزک ویڈیو نے وہ پورا دور ہمارے سامنے لاکر کھڑا کر دیا ہے ، جب سیاسی منشوروں میں دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ میں نے فیس بک پر لکھا کہ اس اندھیرے وقت میں یہ ایک ضروری ویڈیو ہے اور اس کو آگ کی طرح پھیلا دینا چاہیے۔

میں بہت جذباتی ہو رہا ہوں۔ شکریہ امیتابھ اور انندتا۔ سروچی ورما نے ویڈیو میں اس مسلم خاتون کا کردار ادا کیا ہے، جو چھٹھ منا رہی ہے۔ پوری فیملی جوش و خروش سے لگی ہے۔ کلپنا نے بڑے جذبے سے چھٹھ کا گیت گایاہے۔ کلپنا بھوجپوری کی نمائندہ گلوکارہ ہیں۔ انہوں نے یوٹیوب پر اس ویڈیو کو اپلوڈ کرتے ہوئے جو بات لکھی ہے، اس کو بار بار پڑھا جانا چاہیے، جس میں چھٹھ کا حسن ہے اور خیرسگالی کا تذکرہ ہے۔ اس ویڈیو کو اپنے تمام قارئین میں بانٹتے ہوئے مجھے دشینت کمار کی یہ لائنیں یاد آ رہی ہیں ؛

اس ندی کی دھار سے ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے

 ناؤ جرجر ہی سہی لہروں سے ٹکراتی تو ہے

 ایک چنگاری کہیں سے ڈھونڈ لاؤ دوستو

 اس دیے میں تیل سے بھیگی ہوئی باتی تو ہے!

(مضمون نگار فلم ‘انارکلی آف آرا’کے ڈائرکٹر ہیں۔)