فکر و نظر

کیاسپریم کورٹ حکومت کے دباؤ میں ہے؟

پریس کانفرنس کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے ،آزادی اور جمہوریت کی بقا پر بحث چھڑی ہوئی ہے ،ملک کے بیشتر ماہرین قانون عدلیہ پر حکومت کے بڑھتے دباؤکو بے نقاب کرنے والے چاروں ججز کے اس اقدام کی تعریف کررہے ہیں اور ان  کو سلام کررہے ہیں۔

supreme_court_judges_pti

پارلیامنٹ میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی دستور کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ، سیاسی جماعتوں، ان کے لیڈروں، اسکو نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی سوجھ بوجھ پر منحصر ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں جمہوری اداروں کی جڑیں خاصی مستحکم اور گہری ہیں۔ اس کا کریڈیٹ دستور کی دفعات سے زیادہ اداروں کے تحمل اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ گو کہ دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی صرف صدر مملکت اور گورنرز کو ہی استنثیٰ حاصل ہے، مگر ایک غیر تحریر شدہ کوڈ کے تحت پچھلے 60سالوں میں ایک ایسا مزاج بن چکا ہے کہ وزیر اعظم یا اس کے دفتر، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، فوجی سربراہ اور لوک سبھا اسپیکرجیسی شخصیات یا اداروں کو احتساب یا کسی اور ایشو کے نام پر عدالتوں یا میڈیا میں گھسیٹنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان کی کوئی بھی عدالت وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پیٹیشن سماعت کیلئے تب تک منظور نہیں کرتی ہے جب تک وہ عہدہ پر فائز ہے۔ انتخابی بے ضابطگیوں کو لیکر 1975میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نااہل قرار دیا تھا۔ جس کے جواب میں مسز گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرکے عدالتوں کے اختیارات ہی چھین لئے۔ ایک اور وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے خلاف بد عنوانیوں کی سماعت شروع کرنے کیلئے عدالت نے ان کی مدت کار کے ختم ہونے کا انتظار کیا۔بدلے میں ایگزیکٹو بھی عدالت کے احکامات کو حرف آخر تسلیم کرکے اس کے احترام پر آنچ نہیں آنے دیتا ہے۔

جولائی 2000 میں جب اس وقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے کسی ایشو پر چیف جسٹس کے ساتھ اپنے اختلاف کو عوامی فورم میں ظاہر کیا توچند گھنٹوں کے اندر ہی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ان سے استعفیٰ طلب کیا۔ جیٹھ ملانی خود ایک جید قانون دان ہیں اور انکا موقف حق پر مبنی تھا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال یہاں دیگر اداروں پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ ایک سفارتی ضیافت کے موقع پر میں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (جو اب سابق ہیں) سے پوچھا کہ آخر عدالتیں وزیر اعظم کا احتساب کرنے سے کیوں گھبراتی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ استحکام کو احتساب کی خاطر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وزیر اعظم ہی حالت تذبذب میں ہو تو وہ انتظامیہ کی سربراہی کیسے کرے گا؟ حکومتیں زور زبردستی اور اتھارٹی سے زیادہ اقبال سے چلتی ہیں اور اگر اقبال ہی ماندپڑجائے تو ملک کا خدا ہی حافظ۔

مگر لگتا ہے کہ جب سے وزیر اعظم نریندر مودی بر سر اقتدار آئے ہیں، اداروں کے درمیان یہ غیر تحریری کوڈ تحلیل ہوتا جا رہا ہے، پچھلے ساڑھے تین سالوں میں مودی اور انکے دست راست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ نے اداروں کی بیج کنی کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جس نے بھی لائن پر آنے سے انکار کیا، اسکو ملک دشمن، اینٹی نیشنل کے خطابات ملے۔ پچھلے سال فوج میں سینیارٹی اورمیرٹ کو نظر انداز کرکے اپنے منظور نظر جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا گیا، جو اب آئے دن ایسے بیانات دے رہا ہے کہ ملک اور فوج کی سبکی ہور ہی ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے  مسیج دیا جا رہا ہے کہ آئین سے زیادہ وزیر اعظم کی خوشنودی ضروری ہے۔ دیگر اداروں کو اپنے ایجنڈہ کی پٹری پر لانے کے بعد ، حکومت کیلئے اعلیٰ جوڈیشری ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کے خلاف ہندو انتہا پسند تنظیموں کی ایما پر 2014میں ایک رٹ پیٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی، تو کورٹ کی نوٹس کے باوجود کئی سماعتوں پر حکومت جموں و کشمیر جواب دائر نہیں کر رہی تھی۔ میں نے مرحوم وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید سے ایک بار پوچھا کہ وہ آخر جواب دائر کیوں نہیں کرتے ہیں؟ ا ن کا جواب تھا کہ وہ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جسٹس ٹھاکر کا تعلق جموں کشمیر کے بانہال سے ہے وہ ریاست کے سیاسی اور سماجی تانے بانے سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ شیخ محمد عبداللہ کے دست راست دیو ی داس ٹھاکر کے فرزند بھی ہیں۔

 مگر جب جسٹس ٹھاکر نے عہدہ سنبھالا ، تو2017میں ان کی ریٹائرمنٹ تک حکومت نئی دہلی نے معاملہ کو الجھا کر رکھا اور پیش رفت نہیں ہونے دی۔ حکومت ان کے جانشین جسٹس جگدیش سنگھ کہر سے بھی خائف تھی۔ بعد میں حکومت کے ایک معتبر ذرائع نے بتایا کہ وہ موجودہ چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کے عہدہ سنبھالنے کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ انصاف کے نام پر اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھایا جاسکے۔ بعد میں وقوع پذیر واقعات نے اس خدشہ کو تقویت بخشی۔ بابری مسجد۔رام مندر قضیہ کی سماعت اور اس پر بنچ کی تشکیل، مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ پر سماعت اور فیصلہ وغیرہ پر س طرح سپریم کورٹ نے جس طرح تیزی دکھائی، اس سے یقیناً جوڈیشری میں خاصا اضطراب پیدا ہوگیا تھا۔ افواہیں گشت کر رہی تھیں کہ عدالتی مہر سے حکومت اپنا ہندو ایجنڈہ نافذ کروانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یہی عدالت بابری مسجد کی مسماری میں ملوث مرکزی وزیر اوما بھارتی اور معمر بی جے پی لیڈروں ایل کے اڈوانی اور ایم ایم جوشی کے خلاف مقدمہ میں وہ تیزی نہیں دکھا رہی ہیں۔ یہ مقدمات 1992ء سے عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ اڈوانی اور جوشی اور دیگر کے خلاف مقدمات کی جو حالت ہے ، یا ملک کے دیگر حصوں میں با لخصوص گجرات میں جو حالات ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

حالات اب اس افسوسناک مقام پر آپہنچ گئے، کہ سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں کو خود چیف جسٹس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا پڑا۔ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ کے چار ججوں کو پریس کانفرنس میں چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف الزام تراشیاںکرنی پڑیں۔ ان کا الزام تھا کہ چیف جسٹس کورٹ کے ضوابط کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ چار ججوں نے یہ بھی الزام بھی لگایا کہ سپریم کورٹ میں ’سب ٹھیک نہیں‘ اور ’جمہوریت کو خطرہ‘ ہے۔ ان ججوں کو یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ میں انصاف نہیں ہو رہا ہے۔ ایک معاملہ جج جسٹس لویا کی موت کا ہے۔ جسٹس لویا امت شاہ کے خلاف ایک معاملے کی جانچ کر رہے تھے اور یکایک وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں میڈیکل رپورٹ کے مطابق دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے۔ دہلی کی ’کارواں‘ میگزین نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کی روشنی میں جسٹس لویا کی موت مشتبہ حالات میں ہوئی تھی۔ ان کی فیملی کے مطابق اس کیس کو رفع دفع کرنے کیلئے ان کو 100کروڑ روپے کی رشوت کی بھی پیش کش کی گئی تھی۔ اس معاملے پر جب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو کوئی تشفی بخش قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اور معاملہ جونئیر ججوں پر مشتمل ایک بنچ کے حوالے کیا گیا۔

 دوسرا معاملہ لکھنؤ کے ایک میڈیکل کالج میں بدعنوانی کا ہے جس میں خود سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ جج پر آنچ آ رہی ہے۔الغرض سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں نے ملک میں سپریم کورٹ کے تعلق سے دو شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اولاً یہ کہ سپریم کورٹ حکومت کے دباؤمیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں خود انصاف خطرے میں ہے۔ اب اس مسئلہ کو حل کرنے میں کوئی بھی کوتاہی عدلیہ کے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ان کی پریس کانفرنس کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے ،آزادی اور جمہوریت کی بقا پر بحث چھڑی ہوئی ہے ،ملک کے بیشتر ماہرین قانون پریس کانفرنس کرکے عدلیہ پر حکومت کے بڑھتے دباؤکو بے نقاب کرنے والے چاروں ججز جسٹس جے چیلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کورین جوزف کے اس اقدام کی تعریف کررہے ہیں اور ان کے اس جرات مندانہ اقدام کو سلام کررہے ہیں۔حکمران پارٹی سے وابستہ افراد اسے یونین بازی قرار دے رہے ہیں اور ان ججوں کے خلاف مواخذہ اور مقدمہ چلانے کی بھی وکالت کر رہے ہیں ۔ چند ایک نے ٹوئٹ کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر روکنے کی سازش ہے اور ان ججوں کو ہندو مخالف بھی بتایا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل آنند گروور کے مطابق ان چاروں ججوں کے پاس دوسرا متبادل بچا ہی نہیں تھا۔ سپریم کورٹ میں ایک غیر تحریری اور غیر جانبدارانہ روایت رہی ہے کہ کس طرح بقیہ ججوں کو کام سونپا جائے گا۔دراصل پورا نظام ہی منہدم ہو گیا ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔