خبریں

2017 میں ایک فیصد امیروں کی جیب میں کل جائیداد کا 73 فیصد

ورلڈ اکانومک فورم کے اجلاس میں شامل ہونے داووس جارہے وزیر اعظم نریندر مودی سے درخواست کی ہے کہ حکومت کو یہ طے کرنا چاہیے کہ ملک کی معیشت تمام لوگوں کے لیے کام کرتی ہے نہ کہ صرف چند لوگوں کے لیے۔

World-Economic-Forum-Narendra-Modi-Reuters-e1516615730773

نئی دہلی:2017میں ہندوستان کی کل جائیداد کا 73 فیصد ملک کے محض 1 فیصد امیروں کے کھاتے میں چلا گیا، جبکہ 67 کروڑ غریب ہندوستانی جو آبادی کا آدھا حصہ ہیں، ان کی جائیداد میں محض 1فیصد کا اضافہ ہوا۔ پچھلے بارہ مہینوں میں اس اعلیٰ طبقہ کی آمدنی میں 20913 ارب کا اضافہ ہوا ہے جوکہ سال18-2017کے مرکزی بجٹ کے برابر ہے۔عالمی ترقیاتی تنظیم آکسفیم کے ذریعے جاری نئی رپورٹ Reward Work Not Wealth کے مطابق ” عالمی سطح پر بھی پچھلے سال کی کل جائیداد کا 82 فیص محض 1فیصد امیروں کے پاس جمع ہوئی جبکہ، 3.7 کروڑ آبادی جس میں آدھی غریب عوام ہے ان کی جائیداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ “

یہ رپورٹ،داووس کے ورلڈ اکنامک فورم، سوئٹزرلینڈ کے پہلے جاری کیا جا رہا ہے جہاں دنیا بھر‌کے مخصوص سیاستداں اور کاروباری ہوں‌گے۔عالمی معیشت کس طرح مخصوص امیر طبقے کو بےانتہا جائیداد جمع کرنے میں مدد کرتی ہے جبکہ ہزاروں لاکھوں لوگ غریبی سے جوجھتے ہوئے جینے کے لئے مجبور ہیں اس بات کا انکشاف  بھی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

سال 2017 میں ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔  ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ تقریباً ہرایک دن دو ارب پتیوں کی شرح سے۔سال 2010 سے اب تک ارب پتیوں کی جائیداد اوسطاً 13 فیصد کی شرح سے سالانہ بڑھی ہے جو کہ معمولی ملازمین کی مزدوری کے مقابلے میں چھ گنا تیز رفتار ی سے  اضافہ ہے۔  تقریباً 2فیصدسالانہ اضافہ کے مطابق۔

بنگلہ دیش کا ایک کپڑا کاریگر اپنی پوری عمر میں جتنا کما پتا ہے، دنیا کے چار بڑے فیشن برانڈ کے سی ای او اتنا محض چار دنوں میں ہی کما لیتے ہیں۔  یو ایس کے سی ای او کو تو اتنا کمانے میں محض ایک دن ہی لگتا ہے۔ویت نام کے 2.5 کروڑ کپڑا کاریگروں کی مزدوری کو بڑھا کر اپنی زندگی گزر بسر کرنے لائق کرنے کے لئے ایک سال میں 2.2 کروڑ کا خرچ آئے‌گا۔  یہ گارمینٹ سیکٹر کی 5 بڑی کمپنیوں کے ذریعے اپنے امیرشیئر ہولڈرس کو دی جانے والی رقم کا تقریباً ایک تہائی ہے۔

آکسفیم کے ذریعے جاری رپورٹ، ان نکات پر روشنی ڈالتی ہے جس کے وجہ سے مزدوروں کی آمدنی اور قابل رحم حالات کی قیمت پر امیرشیئر ہولڈرس اور کارپوریٹ مالکوں کو ریوارڈ ملتا ہے۔  ان میں مزدوروںکے حقوق کی پامالی، سرکاری پالیسیوں پر بڑے سرمایہ کاروں کا اثر اور کارپوریٹ کے ذریعے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے اندھا دھند کوشش جیسے نکات خاص ہیں۔ہندوستان میں پچھلے سال میں 17 نئے ارب پتی بڑھے ہیں، جس کی وجہ سے ارب پتیوں کی تعداد بڑھ‌کر 101 ہو گئی۔  ہندوستانی ارب پتیوں کی جائیداد 4891 ارب روپے تک بڑھی ہے جوکہ 15778 ارب روپے سے بڑھ‌کے 20676 ارب روپے ہو گئی۔

آکسفیم کی سی ای او نشا اگروال کا کہنا ہے کہ ‘ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کی معیشت میں ہوئے اضافے کا فائدہ محض کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹا جا رہا ہے۔  ارب پتیوں کی تعداد میں بےتحاشہ اضافہ پھلتی پھولتی معیشت کی نہیں بلکہ ایک ناکام معیشت کی نشانی ہے۔  جو محنت کر رہے ہیں، ملک کے لئے کھانے کا انتظام کر رہے ہیں، مکان اور عمارتوں کی تعمیر کر رہے ہیں، کارخانوں میں کام کر رہے ہیں، وہ لوگ اپنے بچے کو اچھی تعلیم دلانے کے لئے، دواؤں کو خریدنے اور اپنی فیملی کے لئے دو وقت کی روٹی تک جٹا پانے کے لئےبےانتہاجدو جہد کر رہے ہیں۔  یہ بڑھتی کھائی، جمہوریت کو کھوکھلا بناتی ہے اور بدعنوانی اور جانبداری کو بڑھاوا دیتی ہے۔ ‘خاتون مزدور اکثر خود کو سب سے نچلے پائیدان پر پاتی ہیں۔  دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں ہمیشہ کم آمدنی حاصل کرتی ہیں اور روزانہکم  آمدنی والے اور کم محفوظ کاموں میں لگی رہتی ہیں۔  موازنہ کے طور پر10 ارب پتیوں میں سے 9 مرد ہی ہیں۔  ہندوستان میں محض چار خاتون ارب پتی ہیں جن میں سے تین کو جائیداد وراثت میں ملی ہیں۔

ہندوستانی وزیر اعظمنریندر مودی داووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کریں‌گے۔  آکسفیم انڈیا حکومت ہند سے اپیل کرتی ہیں کہ ملک کی معیشت کو سب کے لئے یکساں طورپر بڑھاوا دینے والی بنائیں نہ کہ صرف محض چند خوش قسمت لوگوں کے لئے۔ملک کے نچلے پائیدان کی40فیصد آبادی کی آمدنی میں اعلیٰ طبقہکی10فیصد آبادی کی آمدنی کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہو جس سے دونوں طبقوں کے درمیان عدم مساوات میں کمی ہو سکے اور ملک کی منظم ترقی ہو۔  یہ مزدوری والے شعبے کو بڑھاوا دےکر کیا جا سکتا ہے جس سے ملک میں کام کے مواقع پیدا ہو سکیں۔  زراعت میں سرمایہ کاری  اور سماجی تحفظ کی اسکیموں کے کامیاب عمل درآمد سے بھی یہ ممکن ہے۔

پختہ ٹیکس نظام کو متعین کیا جائے جس سے رقم کا نقصان نہ ہو جیسے کہ ٹیکس چوری اور ٹیکس سے اجتناب کے خلاف سخت قدم اٹھایا جائے، وراثتی ٹیکس کو دوبارہ نافذ کر کے بہت سے امیر لوگوں کی جائیداد پر ٹیکس لگایا جائے، کارپوریٹ ٹیکس بریک کو کم لیکن ختم کیا جائے، تعلیم اور صحت میں خرچ‌کر کےترقی کے یکساں مواقع پیدا کئے جائیں۔اعداد و شمار میں شفافیت لائی جائے اور آمدنی اور جائیداد پر بلند معیار والے اعداد و شمار تیار کئے جائیں۔  لگاتار بڑھ رہی غیربرابری پر حکومت نگرانی کرنے کے لئے قدم اٹھائے۔

آکسفیم کے ذریعے جاری نئے گلوبل سروے کا نتیجہ عدم مساوات پر قدم اٹھانے کے لئے حمایت کو دکھاتا ہے۔  سروے کے دوران 10 ممالک کے 70000 لوگوں سے پوچھ تاچھ کی گئی جس میں سے دوتہائی جواب دینے والے کا یہ ماننا ہے کہ امیر اور غریب طبقے کے درمیان بڑھ رہے عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے جلد قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

84  فیصدہندوستانی جواب دیتے ہوئے اس بات سے متّفق ہیں کہ ملک میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان کی دوری بےانتہا گہری ہے اور 73 فیصد ہندوستانی چاہتے ہیں کہ حکومت فوری اثر سے اس گہری کھائی کو دور کرنے کہ لئے قدم اٹھائے۔

اگروال نےکہا کہ ” ہندوستان کی عوام تبدیلی کے لئے تیار ہے۔  وہ مزدوروں کو اچھی زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کارپوریشن اور بہت امیر آدمی زیادہ ٹیکس چکائیں، وہ چاہتے ہیں کہ خاتون مزدوروںکو بھی مردوں کے کی طرح حق ملیں، وہ چاہتے ہیں کہ پیسہ اور طاقت جو کہ ابتک چند ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے ان کی پہنچ تک بھی ہوں۔  وہ یہ چاہتے ہیں کہ جلد مناسب قدم اٹھائے جائے جس سے کہ اربوں لوگوں کی ترقی ہو سکے نہ کہ ارب پتیوں کا۔ “