عالمی خبریں

حسن روحانی کا دور ہ اور ایرانی قیادت کی ذمہ داریاں

ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر نئی دہلی کو اپنے 1994ء کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے۔ اگر یہ وعدہ ایفا ہوتا ہے تو اس خطے میں امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران اسٹیک ہولڈرز ہوں گے۔

Photo : PTI

Photo : PTI

جس وقت ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی جنوبی شہر حیدر آباد کی تاریخی مکہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کررہے تھے، تقریباً اسی وقت بہار کے سپول ضلع میں مسجد نبوی کے امام شیخ حامد بن اکرم البخاری بھی مسلمانوں کے ایک جم غفیر سے خطاب کر رہے تھے۔ دونوں حضرات کے خطبہ کا متن تقریباً ایک جیسا تھا۔ جہاں ایرانی صدر نے کلمہ توحید کے پرچم تلے عالم اسلام سے متحد ہونے کی اپیل کی، امام حرم نے اسلامی دنیا کے انتشار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسکا واحد حل اتحاد بین المسلمین ہے۔ دونوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کی مذمت کی اور اسکو امن کا پیغامبر بتایا۔

ایرانی صدر اور انکے وفد نے حیدر آباد میں ایک سنی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرکے نہایت ہی مثبت پیغام دینے کی کوشش کی۔ اب اگر ان دونوں رہنماؤں کا مسلمانوں کیلئے اتحاد کا ایک ہی پیغام تھا، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دونوں ممالک خود اسکی عملی تصویر پیش کرکے عالم اسلام کو ابتلاو آزمائش سے باہر نکلنے میں مدد کرتے۔ عالم اسلام کے بیشتر زخم اسوقت ایران،سعود ی عرب کی چپقلش کی دین ہیں۔دو دہائی قبل تک بیشتر معاملوں مثلاً افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے تئیں دونوں ممالک کا موقف یکساں ہوتاتھا۔

Photo : religionworld.in

Photo : religionworld.in

کشمیر کے سلسلے میں ویسے تو سعودی حکومت پس پردہ ہی رول ادا کرتی تھی، مگر ایران کا پاکستان کی ہی طرز پر خاصا فعال کردار ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 1982میں سرینگر کی جامع مسجد میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ ان کا خطبہ سننے کیلئے عوام کا اژدہام امڈ آیا تھا۔1991میں جب اسوقت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال تہران کیلئے اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے تھے، کہ ایران نے ان کی میزبانی کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ وجہ تھی کہ سرینگر میں سیکورٹی دستوں نے اس دن کئی افراد کو ہلاک کیا تھا۔ مگر خطہ کے بدلتے حالات ، بین الاقوامی رسہ کشی ، افغانستان کے منظرنامہ ، پابندیوں اور پھر اپنی معیشت نے شاید ایران کو مجبور کیا کہ بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کا ازسر نو جائزہ لے۔

کشمیر کے حوالے سے ایران کا یو ٹرن مارچ1994ء میں اچانک آیا۔ جموں کشمیر میں حقوق انسانی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ہندوستانکی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں ہندوستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔ مگر اس دوران کوہ البرزکے دامن میں واقع تہران ایئر پورٹ پر شدید سردی میں ہندوستانی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پر لینڈنگ کی۔ یہ طیارہ اس وقت کے وزیر خارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروں کو انتہائی خفیہ مشن پر لے کر آیا تھا۔

 دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کا اہم مکتوب لے کر آئے تھے اور ذاتی طور پر ان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ سوئے اتفاق کہ ‘راجہ صاحب‘ دنیش سنگھ کا یہ آخری سفارتی دورہ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری میں بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی اقتصادی صورت حال انتہائی خستہ تھی، حتیٰ کہ سرکاری خزانہ بھرنے کے لئے حکومت نے اپنا سارا سونا بیرونی ملکوں میں گروی رکھ دیا تھا۔ ادھر سوویت یونین کے منتشر ہو جانے سے اس کا یہ دیرینہ دوست بھی اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے بڑی چالاکی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کرلیا کہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت غیر حاضر رہے۔

جہاندیدہ راؤ کا خیال تھا کہ ایران کے غیر حاضر رہنے کی صورت میں یہ قرارداد خود بخود ناکام ہو جائے گی کیونکہ او آئی سی دوسرے کئی بین الاقوامی اداروں کی طرح ووٹنگ کے بجائے اتفاق رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ جس وقت ہندوستانی فضائیہ کا خصوصی طیارہ ایرانی ہوائی اڈے پر اتر رہا تھا، ایرانی حکام کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ اچانک تہران میں کیوں نازل ہو رہے ہیں؟ ایرانی حکام اتنے حیرت زدہ تھے کہ وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود ہوائی اڈے پر پہنچے اور جب راجہ دنیش سنگھ کو صبح سویرے سردی سے ٹھٹھرتے وہیل چیئر اور ڈاکٹروں کے ہمراہ ہوائی جہاز سے برآمد ہوئے دیکھا تو ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ آخر اس وقت اور اتنے ہنگامی طریقے سے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ دنیش سنگھ نے صدر ہاشمی رفسنجانی اور ایرانی پارلیامنٹ کے اسپیکر ناطق نوری سے ملاقات کی اور اسی دن شام کو دہلی کے اسپتال میں اپنے بیڈ پر دوبارہ دراز دکھائی دیئے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس مہم کو خفیہ رکھنے کیلئے ان کی واپسی تک ان کے بیڈ پر ان ہی کی قد و قامت کے شخص کو لٹایا گیا تھا۔ بہر حال دنیش سنگھ کا مشن کامیاب رہا۔ اس پورے معاملے میں ایران کوکیا ملا؟ یہ ابھی تک ایک راز ہے۔ کہتے ہیں اگر پاکستان کو اس واقعے کی بھنک پڑ جاتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ ادھر ایرانی دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ ہندوستان نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں ان سے ایک وعدہ کیا تھا، جس پر انہوں نے یقین کرلیا ۔ ہندوستان نے ایران سے درخواست کی تھی کہ اگر وہ مغربی ممالک کی مداخلت روکنے میں اس کی مدد کرتا ہے تو وہ پاکستان اور کشمیری رہنماؤں کے ساتھ بات چیت شروع کرکے اس مسئلہ کو حل کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ سچ ہے کہ نرسمہا راؤ نے اس کے بعد کچھ تگ و دو کی۔ایک سال بعد راؤ نے برکینا فاسو میں نا وابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے دوران راؤ نے اعلان کیا کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندوستان آسمان کی وسعتوں جتنی رعایتیں دینے کیلئے تیار ہے۔

Photo : PTI

Photo : PTI

دنیش سنگھ کی واپسی کے بعد 72 گھنٹے ہندوستان کے لئے کافی تذبذب بھرے تھے؛ تاہم ایران نے اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق او آئی سی کی قرارداد کو بڑی حکمت عملی سے ویٹوکردیا۔ چونکہ سبھی نگاہیں اس وقت جنیوا پر ٹکی ہوئی تھیں، اس لئے کسی کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ یہ جان سکتا کہ تہران میں کیا پک رہا تھا۔ مجھے یاد ہے، نئی دہلی میں اس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر ریاض کھوکھر خاصے تناؤ بھرے ماحول میں کشمیری لیڈروں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کو بتا رہے تھے کہ ایران اس انتہائی اہم قرارداد کی حمایت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے؛ حالانکہ صرف ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر نے دونوں کشمیر ی رہنماؤں کی اپنی رہائش گاہ پر پرتکلف دعوت کی تھی اور انہیں باورکرایا تھا کہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔

 قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنیوا میں منعقدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لئے بھارتی وفد کی قیادت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی اور ان کے ساتھ مرکزی وزیر سلمان خورشید اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ موجود تھے۔ اس وفد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 72 گھنٹے قبل وزیر خارجہ دنیش سنگھ ایک ایسا کارنامہ انجام دے چکے ہیں جس کے دور رس اثرات مرتب ہونے والے تھے۔ بعد کے حالات و واقعات نے اسے درست ثابت کیا۔ واجپائی اور ڈاکٹر عبداللہ اب تک اس کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے پھرتے رہیں اور نرسمہا راؤ نے بھی مرتے دم تک ان سے یہ سہرا واپس لینے کی کوشش نہیں کی ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس واقعے کے بعد سے پاکستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کی کبھی ہمت نہیں کی۔

بعد میں ایران اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے؛ حتیٰ کہ افغانستان کے سلسلے میں دونوں نے متضاد موقف اختیار کیا۔ ایران نے ہندوستان کے ساتھ مل کر ناردرن الائنس کو تقویت پہنچائی جو پاکستانی مفادات کے بالکل خلاف تھا۔ پاکستان کو اس رویے سے زبردست صدمہ پہنچا جسے اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔مگر شاید تاریخ پھر پلٹ رہی ہے۔ حالات و واقعات نے اسلامی دنیا کی کمان ایران اور ترکی کی دہلیز تک پہنچا دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ دو گھنٹے کی بات چیت میں جہاں دونوں لیڈروں نے عالمی اور علاقائی امور پر بتادلہ خیال کیا ذرائع کے مطابق ایرانی صدر نے باور کرانے کی کوشش کی، قضیہ کشمیر کو سلجھانے سے خط کے مسائل کا بڑی حد تک ازالہ ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر ایرانی وفد کے اصرار پر مشترکہ بیان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نظریات سے نمٹنے سے متعلق پیراگراف میں یہ اضافہ کیا گیا ، کہ اس (دہشت گردی اور انتہا پسندی) کی جڑوں کو ختم کرنے کیلئے اسکی وجوہات اور ان وعوامل کو بھی ختم کرنا ضروری ہے، جو اسکی تقویت اور وجہ کا باعث بنتے ہیں۔

 ایرانی صدر نے پریس بیان میں علاقائی تنازعات کو سفارتی اور سیاسی کاوشوں سے حل کرنے پر زور دیا۔ ایرانی ذرائع کے مطابق ان کا اشارہ ہندوستان پاکستان مذاکرات کی بحالی اور کشمیر کی طرف تھا۔ہندوستان  کیلئے فی الوقت ایرانی بندر گاہ چاہ بہار خاصی اہمیت کی حامل ہے۔چند ہفتے قبل وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کئے گئے یونین بجٹ میں اسپر 150کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ گو کہ پچھلے سال بھی اتنی ہی رقم مختص کی گئی تھی، مگر ایگریمنٹ اور ٹھیکوں کی تقسیم وغیرہ ایشوز کی دیری کی وجہ سے صرف 10لاکھ روپے ہی خرچ کئے جا سکے۔ وزیر اعظم مودی نے چاہ بہار سے زاہدان تک 1.6بلین ڈالر لاگت کی ریلوے لائن بچھانے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ چاہ بہار ہندوستان کی علاقائی اور ایک بین الاقوامی پاور کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کا ایک اہم پڑاؤ ہے۔ دوسرے قدم کے طور پر ہندوستان اس بندر گاہ کو 7200کلومیٹر طویل انٹرنیشنل نارتھ،ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور کے ساتھ جوڑ کر آرمینیا، آذربائجان، روس اور یورپ تک رسائی حاصل کرکے اسکو چین کے ون بیلٹ ون روڑ کے مقابلے کھڑا کرنے کے فراق میں ہے۔

ہندوستان دنیا کی بڑی اور تیر رفتار معیشت ہی سہی، مگر اس کے سامنے ربط سازیConnectivity ہمیشہ ہی ایشیو رہا ہے۔ کیونکہ پڑوسی ممالک نیپال سے لیکر سری لنکا ، مالدیپ و پاکستان کو اسنے ایک خوف میں مبتلا کرکے رکھا ہو ا ہے۔ حتیٰ کہ بھوٹان کی پارلیامنٹ نے بھی حا ل ہی میں مودی کے پروجیکٹ بھوٹان، بنگلہ دیش، ہندوستان اور نیپال (بی بی آئی این) کوریڈرو کو منظوری دینے سے منع کردیاہے۔ایران کیلئے سنہرا موقع ہے، کہ ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر نئی دہلی کو اپنے 1994ء کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے۔ اگر یہ وعدہ ایفا ہوتا ہے تو اس خطے میں امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران اسٹیک ہولڈرز ہوں گے۔