خبریں

عشرت جہاں کی ماں نے کہا، ڈی جی پی پانڈے نے حقائق کو توڑمروڑ‌کر پیش کیا

سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے کہا کہ عشرت جہاں سمیت تین دیگر لوگوں کے اغوا اور قتل کے الزام میں پانڈے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

Photo: PTI

Photo: PTI

نئی دہلی: ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے عشرت جہاں اور تین دیگر کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر معاملے میں گجرات کے سابق ڈی جی پی پانڈے کو بدھ  بری کر دیا۔خصو صی سی بی آئی عدالت کے جج جےکے پانڈیا نے پانڈے کو بری کرنے کی عرضی اس بنیاد پر قبول‌کر لی کہ عشرت جہاں اور تین دیگر کے اغوا اور ان کے قتل کے تعلق سے ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔سی بی آئی نے اس معاملے کی تفتیش کی تھی اور اس نے احمد آباد کرائم برانچ کے اس وقت کےسربراہ پانڈے پر مبینہ فرضی  انکاؤنٹر میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔اس نے یہ بھی کہا کہ گواہوں کے بیان میں تضاد ہے کیونکہ انہوں نے مختلف جانچ ایجنسیوں کے سامنے الگ الگ گواہی دی ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ پانڈے سرکاری ملازمتھے لیکن سی آر پی سی کی دفعہ 197 کے مطابق ان کے خلاف چاج شیٹ دائر کرنے سے پہلے تفتیشی اہلکار نے حکومت سے ان پر مقدمہ چلانے کی منظوری نہیں لی۔عشرت کی ماں نے شمیمہ کوثر اور سی بی آئی نے پانڈے کی اس عرضی کی مخالفت کی تھی۔  سی بی آئی کا کہنا تھا، ‘ جانچ‌کے دوران یہ سامنے آیا تھا کہ مقتول کو موت سے پہلے غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھا گیا تھا، اس کے بعد ان کو فرضی انکاؤنٹر میں مارا گیا۔  اس مبینہ جرم کی سازش میں عرضی دینے والے ملزم پی پی پانڈے بھی شامل تھے تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ ان کی فعال حصہ  داری تھی۔  ‘

شمیمہ کوثر کا بھی کہنا تھا کہ پانڈے نے اپنی عرضی میں سی بی آئی کے معاملے کی حقیقتوں کو توڑمروڑ‌کر پیش کیا ہے۔  چارج شیٹ میں ان کے خلاف معاملہ بالکل واضح ہے۔  کورٹ میں پیش کئے گئے ان کے جواب میں کہا گیا تھا کہ 03.07.2013 کی چارج شیٹ میں ان کی بیٹی کے انکاؤنٹر میں مجرمانہ سازش میں پانڈے کے شامل ہونے کے ثبوت پیش کئے گئے تھے۔عدالت کے پانڈے کو بری کرنے کے فیصلے کے بعد  شمیمہکے وکیل تلسی گروور نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ پی پی پانڈے کا بری ہونا دکھاتا ہے کہ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر اور قتل معاملہ سہراب الدّین معاملے کی راہ پر جا رہا ہے، جہاں پہلے اثر رسوخ والےملزم بری ہوئے، پھر گواہ بیان سے پلٹ گئے۔  کیا یہ بھی اسی راستے پر جائے‌گا؟  پیٹرن بالکل وہی ہے۔  ‘

واضح ہو کہ سی بی آئی نے جولائی 2013 میں اپنا پہلا چارج شیٹ دائر کر آئی پی ایس افسر پی پی پانڈے، ڈی جی ونجارا اور جی ایل سنہل سمیت گجرات پولیس کے سات افسروں کو نامزد کیا تھا اور ان پر اغوا، قتل اور سازش کا الزام لگایا تھا۔اس کے بعد اگست میں سی بی آئی نے پانڈے کو گرفتار کیا اور ضمانت ملنے سے پہلے وہ 16 مہینے جیل میں رہے۔  باوجود اس چارج شیٹ کے گجرات حکومت نے 2016 کو ریاستی پولیسفورس کا سربراہ بنایا اور 2017 میں ان کو ڈی جی پی کے روپ میں ایکسٹینشن دیا گیا۔اس کے بعد ایک ریٹائر پولیس افسر جولیو ربیرو نے پانڈے کی تقرری اور ایکسٹینشن کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ پانڈے پر ایک سنگین جرم کا الزام ہے۔  اس کے بعد پانڈے کو اپریل 2017 میں عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

سی بی آئی نے فروری 2014 میں Supplementary چارج شیٹ بھی دائر کیا تھا، جس میں آئی بی کے خصوصی ڈائریکٹر راجندر کمار اور افسر ایم ایس سنہا سمیت اس کے چار افسروں کو نامزد کیا تھا۔  اس کو بھی آئی بی افسروں کے ذریعے چیلنج دیا گیا ہے۔  ان افسروں کا کہنا ہے کہ سی بی آئی نے ان پر مقدمہ چلانے کے لئے مرکز کی اجازت نہیں لی تھی۔  کورٹ اس معاملے پر بھی ایک ہفتے کے اندر فیصلہ سنا سکتا ہے۔

احمد آباد کرائم برانچ کے افسروں نے 15 جون، 2004 کو شہر کے باہری علاقے میں مہاراشٹر کے ممبرا کی 19 سالہ کالج طالبہ عشرت جہاں، اس کے دوست جاوید شیخ عرف پرنیش، ذیشان جوہر اور امجد رانا کو مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں مار گرایا تھا۔

اس کے بعد ہوئی ایک مجسٹیریل تفتیش، ایس آئی ٹی تفتیش اور سی بی آئی تفتیش میں یہ ثابت ہوا تھا کہ یہ ایک فرضی انکاؤنٹر کا معاملہ تھا اور پولیسکا یہ دعویٰ کہ انہوں نے ‘ اپنی حفاظت ‘ میں گولی چلائی تھی، جھوٹ ہے۔اس انکاؤنٹر کے تقریباً ایک دہائی بعد جولائی 2013 میں پانڈے سمیت گجرات پولیسکے سات افسروں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی۔  فروری 2014 میں ایک سپلیمینٹری چارج شیٹ میں 4 آئی بی افسروں کا نام بھی شامل کیا گیا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)