فکر و نظر

کرناٹک انتخاب میں دیوگوڑا کو لےکر مودی نے سُر کیوں بدلا؟

     ٹمکور میں ہوئی ایک ریلی میں نریندر مودی نے دیوگوڑا کی تعریف تو کی لیکن کہا کہ عوام ان پر ووٹ برباد نہ کریں۔ شاید بی جے پی کو اس بات کا ڈر ہے کہ ریاست میں Anti-incumbencyکا فائدہ کہیں جے ڈی ایس کو نہ مل جائے، اس لئے وہ اس کی کانگریس سے نزدیکی بتانے میں لگی ہوئی ہے۔

  سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی آئی بی)

سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی نے کرناٹک انتخاب میں پہلے سے طے 15 ریلیوں کی جگہ اب 21 انتخابی ریلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کو امید ہے کہ وہ ویسے ووٹروں کو ان تابڑ توڑ ریلیوں کی بدولت بی جے پی کی طرف کرنے میں کامیاب ہوں‌گے جو ابتک طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ ان کو کس طرف جانا ہے۔   لیکن یہ کسی سیاسی ڈرامے اور لوگوں کا موڈ راتوں رات بدل دینے والے کسی مدعے کے بغیر اتنا آسان بھی نہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ویسے ووٹروں کی تعداد بہت چھوٹی ہو جو کسی شک میں ہو اور زیادہ تر ووٹر نے پہلے سے طے کر رکھا ہو کہ ان کو کس کو ووٹ دینا ہے۔

  ایسا عام طور پر ان انتخابات میں ہوتا ہی ہے جس میں کوئی بہت بڑا مدعا انتخابات کے مرکز میں نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ واقعی میں نریندر مودی کی 21 انتخابی ریلیوں کے کرناٹک کے ووٹروں پر کیا اثر پڑے‌گا۔   ابھی تک مودی کی انتخابی مہم بہت بھٹکی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کو لےکر کشمکش کی حالت بنی ہوئی ہے۔   مودی ،دیوگوڑا کی پارٹی جنتا دل سیکولر (جے ڈی ایس) پر کھل‌کر حملہ بول رہے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ کانگریس کے ساتھ دیوگوڑا کی پارٹی کی گپ چپ طریقے سے سانٹھ گانٹھ ہے جبکہ موٹے طور پر مانا یہ جا رہا ہے کہ اگر کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملتی ہے تو جے ڈی ایس اور بی جے پی ساتھ مل‌کر حکومت بنا لیں‌گے۔ زیادہ تر انتخابی سروے غیر فیصلہ کن اکثریت کی طرف ہی اشارہ کر رہے ہیں۔

  بنگلور کے باہر ٹمکور  (Tumkur) میں ایک انتخابی ریلی کو مخاطب  کرتے ہوئے نریندر مودی نے دیوگوڑا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دیوگوڑا کرناٹک کے سب سے معزز رہنماؤں میں ہیں لیکن ووٹر اپنا ووٹ ان کی پارٹی کو دےکربرباد نہ کریں۔   انہوں نے کہا کہ ‘ دیوگوڑا کی پارٹی تیسرے مقام پر آئے‌گی۔ ‘ انہوں نے اس کے آگے جے ڈی ایس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے ساتھ ان کا کئی انتخابی حلقوں میں خفیہ سمجھوتہ ہو ا ہے۔ انہوں نے کئی انتخابی حلقوں کے نام بھی لئے۔

 کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھارمیا کے ساتھ کانگریس صدر راہل گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھارمیا کے ساتھ کانگریس صدر راہل گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

   وزیر اعظم کا عوامی طور پر کانگریس اور جے ڈی ایس کے درمیان خفیہ سمجھوتہ ہونے کا الزام لگانا تھوڑا عجیب سا لگتا ہے۔ کیونکہ کئی لوگوں  کا ماننا ہے کہ انتخاب کے بعد حکومت بنانے کو لےکر جے ڈی ایس کے ساتھ بی جے پی کی پہلے ہی گپ چپ سانٹھ گانٹھ ہو چکی ہے۔   پھر کیوں مودی جے ڈی ایس پر حملہ کر رہے ہیں؟ مودی ایسا کہہ‌کرکیا پانا چاہ رہے ہیں ؟ شاید بی جے پی کو اس بات کا ڈر ہے کہ ریاست میں Anti-incumbencyکا فائدہ کہیں جے ڈی ایس کو زیادہ نہ مل جائے۔ اس لئے وہ جے ڈی ایس کو کانگریس کے نزدیک بتانے میں لگی ہوئی ہے جو کہ کرناٹک میں ابھی حکمراں جماعت ہے۔   یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابی تشہیر کے دوران بی جے پی دیوگوڑا کے اس بیان سے دکھی ہو گئی  ہو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ اگر ان کا بیٹا (ایچ ڈی کمارسوامی) بی جے پی کے ساتھ کسی بھی طرح کی سانٹھ گانٹھ کرتا ہے تو وہ اس سے اپنا ناتا توڑ لیں‌گے۔پچھلی بار بی جے پی کے ساتھ جانا بہت بڑی غلطی تھی۔ ‘

   ایسا لگتا ہے کہ اس بیان نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اندر بدلے کا جذبہ بھر دیا ہو۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دیوگوڑا بی جے پی کو پہلے  اہمیت دینے کے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔   سچ تو یہ ہے کہ دیوگوڑا اور ان کے بیٹے کمارسوامی Hung Assembly بننے کی حالت میں سارے پتے اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس بی جے پی اور کانگریس میں سے کسی کے پاس بھی جانے کا اختیار رہے‌گا۔   دیوگوڑا ایک بےحد چالاک رہنما ہیں۔ اگر بی جے پی انتخاب میں اچھی تعداد میں سیٹیں نہیں لے آ پاتی ہے تب دیوگوڑا 2019 کے لوک سبھا انتخاب کو خیال میں رکھتے ہوئے اپنے ممکنہ معاون (بی جے پی یا کانگریس) کا انتخاب کرے‌گی۔

   اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مودی کی  یہ آخری میراتھن کوشش رنگ نہیں لاتی ہے تو دیوگوڑا کانگریس کے ساتھ 2019 کے انتخابات کے مدنظر سودے بازی شروع کر سکتے ہیں۔   2013 کے اسمبلی انتخاب میں جے ڈی ایس اور بی جے پی دونوں کو ہی 20 فیصدی ووٹ شیئر اور 40-40 سیٹیں ملی تھیں۔ لیکن اگر بی جے پی کے 20 فیصدی ووٹ شیئر میں یدورپا کی پارٹی کے جے پی کے 10 فیصدی ووٹ ملا دے تو بی جے پی کے پاس 30 فیصدی ووٹ ہو جاتے ہیں۔   ریڈی بھائیوں  کے فرنٹ بی ایس آر سی کے تین فیصدی ووٹ ملانے کے بعد بی جے پی کا ووٹ شیئر 33 فیصدی تک چلا جاتا ہے لیکن ابھی بھی یہ اعداد و شمار کانگریس کے 36 فیصدی ووٹ شیئر سے کم بیٹھتا ہے۔

 وزیر اعظم اپنے آخری میراتھنی انتخابی ریلیوں کی بدولت کم پڑ رہے اسی 3 سے4 فیصدی ووٹروں کو اپنی طرف کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ ووٹروں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ بی جے پی فیصلہ کن لڑائی کی  کگار پر کھڑی ہے۔ وہ دیوگوڑا کے ووٹروں سے جے ڈی ایس کو چھوڑ بی جے پی کو ووٹ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔   نریندر مودی دلتوں اور پچھڑوں کا ووٹ پانے اور اپنی طرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس کے لئے ان کے درمیان یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بی جے پی نے ایک دلت کو صدر اور ایک پسماندہ کو وزیر اعظم بنایا ہے۔ وہ جنتا دل (سیکولر) کی دلت اور پچھڑے حامیوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کی طرف چلے آئیں۔

 مودی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ سدھارمیا نے ریاست کے 24 فیصدی ایس سی  ایس ٹی ووٹروں کو مضبوطی سے اپنی طرف کر رکھا ہے۔ جے ڈی ایس کی اہم بنیاد ووکّالگا کمیونٹی کے 12 فیصدی ووٹ ہیں۔ اس کو ایس سی  ایس ٹی ووٹروں کی بھی اچھی حمایت حاصل ہے۔   بی جے پی کو پتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے ایس سی ایس ٹی کے ووٹ کیا معنی رکھتے ہیں۔ اس لئے مودی اپیل کر رہے ہیں کہ  جے ڈی ایس  کو ووٹ دےکر اپنا ووٹ برباد مت کیجئے۔   وزیر اعظم نریندر مودی کے آخری دور کی انتخابی تشہیر کی کامیابی 3 سے4 فیصدی اضافی ووٹ پانے پر ٹکی ہوئی ہے۔ یہ ووٹ ہی بی جے پی کو فیصلہ کن جیت دلا سکتے ہیں۔

 سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا وہ یہ اکیلے اپنی ساکھ کی بدولت کر پائیں‌گے؟   بہتوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ کرناٹک، اتر پردیش نہیں ہے۔ یہاں کا ثقافتی پس منظر الگ ہے جس میں شاید مودی کے لئے جگہ بنانا مشکل ہو۔ ایسے بھی ریاست میں سدھارمیا کے قد کا آج کی تاریخ میں کوئی دوسرا رہنما نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کو زیادہ تر انتخابی سابقہ سروے میں بڑھت ملتی دکھ رہی ہے۔