خبریں

کیا ملک میں واقعی’مودی‘ لہر چل رہی ہے؟

اعداد و شمار پر غور کریں تو بی جے پی حامیوں کا یہ دعویٰ پوری طرح سے صحیح نظر نہیں آتا۔ ملک کی کل 4139 اسمبلی سیٹوں میں سے صرف 1516 سیٹیں یعنی قریب 37 فیصدی ہی بی جے پی کے پاس ہیں اور صرف دس ریاستوں میں بی جے پی کی اکثریت والی حکومت ہے۔

(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : حال ہی میں کرناٹک میں ہوئے اسمبلی انتخاب میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے بعد بھی بی جے پی حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ایک وقت جب دو دن کے لئے ہی ریاست میں بی جے پی کی حکومت رہی تب تمام لوگوں کے ذریعے یہ دعویٰ کیا گیا کہ بی جے پی 21 ریاستوں میں اپنے بوطے  یا اپنے مددگاروں کے ذریعے اقتدار پر قابض ہو گئی ہے۔ حالانکہ کرناٹک میں حکومت گر جانے کے بعد یہ اعداد و شمار پھر سے 20 پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بی جے پی اور ان کے معاونین کے ذریعے لگاتار کیا جا رہا ہے کہ 2014 میں مودی حکومت آنے کے بعد سے پورا ملک بھگوا  ہو گیا ہے۔

یہاں تک کہ کرناٹک میں دکھائی گئی حزب مخالف یکجہتی کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی حال میں کٹک میں کہا، ‘ بی جے پی ملک کی  20 ریاستوں میں اقتدار پر قابض ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ پچھلے 4 سال میں این ڈی اے کی کارکردگی  کو لوگوں نے حمایت دی ہے۔ ‘ اس سے پہلے بھی گجرات اور ہماچل پردیش میں حکومت بننے کے بعد بی جے پی رکن پارلیامان کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا، ‘ ہم 19 ریاستوں میں حکومت چلا رہے   ہیں۔ یہاں تک کہ اندرا گاندھی، جب اقتدار میں تھیں تو 18 ریاستوں میں ہی ان کی حکومت تھی۔ ‘

حالانکہ وزیر اعظم، بی جے پی رہنماؤں اور ان کے حامیوں کے ذریعے کئے جا رہے ان دعووں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پچھلے چار سالوں میں بی جے پی نے کئی نئی ریاستوں میں حکومت بنائی ہے اور ان کی جغرافیائی اور سماجی توسیع ہوئی ہے۔ لیکن اگر ہم اعداد و شمار کو توجہ سے دیکھیں‌گے تو ہمیں یہ سمجھ میں آئے‌گا کہ بی جے پی کا کئی ریاستوں میں حکومت بنانے کا دعویٰ یا پھر پورے ملک کے بھگوا  ہو جانے کا دعویٰ محض علاقائی جماعتوں کے ساتھ اسمارٹ انتخابی گٹھ جوڑ (انتخاب سے پہلے اور انتخاب کے بعد-دونوں) کا نتیجہ ہے۔

اصل میں اگر ہم ان کے مددگاروں کو ہٹا دیں تو بی جے پی ملک کے 29 ریاستوں اور دو مرکز حکومتی ریاستوں میں سے صرف 10 پر اکثریت والی حکومت چلا رہی ہے۔ کل ملاکر ملک کی کل 4139 اسمبلی سیٹوں میں 1516 سیٹیں یعنی قریب 37 فیصدی ہی بی جے پی کے پاس ہیں۔ اس میں سے بھی آدھی سے زیادہ یعنی تقریباً 950 سیٹیں محض 6 ریاستوں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، مہاراشٹر اور کرناٹک کی ہیں۔

data-2

یعنی بی جے پی کو ہم صرف اس بات کا کریڈت  دے سکتے ہیں کہ اس نے ہندوستان کے کچھ سب سے بڑے اور انتخابی لحاظ سے اہم ریاستوں میں  جیت حاصل کی ہے۔ اتر پردیش (403/312)، ہریانہ (90/47)، مدھیہ پردیش (230/165)، چھتیس گڑھ (90/49)، راجستھان (200/163)، گجرات (182/99)، اتراکھنڈ (70/56) اور ہماچل پردیش (68/44) وغیرہ وہ ریاست ہیں جہاں پر بی جے پی کو واضح جیت ملی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شمالی ہندوستان کی ریاستیں ہیں۔

تریپورہ، نارتھ ایسٹ  کی اکلوتی ایسی ریاست ہے جہاں پر بی جے پی نے اپنے دم پر حکومت بنائی ہے۔ پارٹی کو یہاں 60 سیٹوں میں سے 35 پر جیت ملی ہے۔ اس جیت کو بھی بی جے پی نے لیفٹ پارٹیوں  پر نظریاتی جیت بتایا، جن کی تقریباً تین دہائی سے ریاست پر حکومت تھی۔ بی جے پی کی اس حکمت عملی کا مقصد صرف اس جیت کو بڑی جیت ثابت کرنے کا تھا۔

ایسے ہی نارتھ ایسٹ کی ایک اور ریاست اروناچل پردیش ہے، جہاں پر بی جے پی ابھی اکثریت میں ہے، لیکن یہاں کی کہانی دوسری ہے۔ 2014 میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے دوران بی جے پی کو صرف 11 سیٹوں پر جبکہ کانگریس کو 42 سیٹوں پر جیت ملی تھی لیکن بعد میں بی جے پی نے جوڑ توڑ کرکے پوری حکومت اپنی بنا لی۔ ابھی ریاست میں بی جے پی کے 48 ایم ایل اے ہیں۔

اب ہم دوسری بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ مہاراشٹر (288/122)، آسام (126/60)، بہار (243/53)، جھارکھنڈ (81/35)، گووا (40/13)، جموں و کشمیر (89/25)، منی پور (60/21)، میگھالیہ (60/2) اور ناگالینڈ (60/12) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں  کہ ان ریاستوں پر اقتدار میں رہنے کے لئے بی جے پی اپنے مددگاروں پر پوری طرح سے منحصر ہے۔

data

اب ان ریاستوں کی بات کرتے ہیں جہاں پر بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے۔ کیرل (140/1)، پنجاب (117/3)، مغربی بنگال (295/3)، تلنگانہ (119/5)، آندھر پردیش (175/4)، دہلی (70/3)، اڑیسہ (147/10) میں بی جے پی کی سیاست بےحد کمزور حالت میں ہے۔ صرف کرناٹک واحد جنوب ہندوستانی ریاست ہے جہاں پر بی جے پی کی حالت بہتر ہے۔ اس ریاست میں حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخاب میں پارٹی نے 222 میں سے 104 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ اس کے علاوہ تمل ناڈو، سکم اور پانڈی چیری  میں بی جے پی اپنا کھاتا بھی نہیں کھول پائی ہے۔

یعنی اگر ہم اعداد و شمار کی مانے تو بی جے پی کے خلاف بن رہا مہاگٹھ بندھن اگر حقیقت میں سامنے آ جاتا ہے تو یہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کا سب سے بڑے چیلنج میں سے ایک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مرکز میں مودی حکومت آنے کے بعد یعنی پچھلے 4سالوں میں 18 ریاستوں میں انتخاب ہوئے ہیں، اس میں سے بی جے پی کو صرف 5 ریاستوں میں مکمل اکثریت ملی ہے۔6 ریاستوں میں اس نے مددگاروں  کے ساتھ حکومت بنائی ہے، وہیں 7 ریاستوں میں دوسری  جماعتوں کی حکومت بنی ہے۔

اگر ہم سال کے حساب سے بات کریں تو 2014 میں آندھر پردیش، اروناچل پردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر، اڑیسہ، سکم اور جموں و کشمیر کل 9 ریاستوں میں انتخاب ہوئے تھے۔ اس میں سے ہریانہ اور جھارکھنڈ میں بی جے پی کی مکمل  اکثریت والی حکومت بنی جبکہ مہاراشٹر، جموں و کشمیر اور سکم میں بی جے پی نے گٹھ بندھن حکومت بنائی۔ اروناچل میں بعد میں اس کی حکومت بن گئی۔ 2015 میں دہلی اور بہار میں اسمبلی انتخاب ہوئے، لیکن ان دونوں جگہوں پر بی جے پی کو بری طرح ہار کا سامنا کرنا  پڑا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بہار میں جے ڈی یو کے ساتھ اتحاد کرکے بی جے پی اقتدار میں ہے۔

2016 میں آسام، کیرل، پانڈی چیری ، تمل ناڈو اور مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ لیکن بی جے پی کو کہیں  بھی اکثریت نہیں ملی، صرف آسام میں وہ اتحاد کی حکومت بنا پائی۔ 2017 میں گووا، گجرات، منی پور، پنجاب، اتر پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور ہماچل پردیش میں انتخابات ہوئے۔ اس میں اتر پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور ہماچل پردیش میں بی جے پی نے اکثریت والی حکومت بنائی، وہیں گووا اور منی پور میں بی جے پی نے اتحاد کی حکومت بنائی۔

2018 میں اب تک میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ اور کرناٹک میں انتخابات ہوئے ہیں۔ اس میں سے صرف تریپورہ میں بی جے پی کی اکثریت والی حکومت ہے، جبکہ میگھالیہ اور ناگالینڈ میں وہ حکومت میں شامل ہے اور کرناٹک میں حزب مخالف میں ہے۔ اس سال کے آخر میں3  بڑی ریاستوں میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے علاوہ نارتھ ایسٹ کی ریاست منی پور میں انتخابات ہونے ہیں۔