خبریں

ای-کچرا پیدا کرنے والے دنیا کے 5ٹاپ ملکوں میں ہندوستان بھی شامل 

ای-کچرے کی عالمی مقدار 2016میں 4.47 کروڑ ٹن تھی جو 2021 تک 5.52 کروڑ ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔  ہندوستان میں قریب 20 لاکھ ٹن سالانہ ای-کچرا پیدا ہوتا ہے۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی:دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرانک کچرا (ای-کچرا) پیدا کرنے والے ٹاپ 5 ملکوں میں ہندوستان کا نام بھی شامل ہے۔  اس کے علاوہ اس فہرست میں چین، امریکہ، جاپان اور جرمنی ہے۔  ایک رپورٹ میں یہ جانکاری دی گئی ہے۔5 جون کو یوم ماحولیات سے ایک دن پہلے سوموار کو اہم نیشنل اکونامک کاؤنسل کے ذریعے جاری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ای-کچرے میں سب سے زیادہ حصے داری مہاراشٹر (19.8 فیصد)کی ہے۔  وہ صرف 47810 ٹن کچرے کو سالانہ ری سائیکل کر کے دوبارہ استعمال کے لائق بناتا ہے۔

ای-کچرے میں تمل ناڈو کی حصےداری13 فیصد ہے اور وہ 52427 ٹن کچرے کو ری سائیکل کرتا ہے۔  اسی طرح اتر پردیش (10.1 فیصد) 86130 ٹن کچرا ری سائیکل کرتا ہے۔  ملک کے ای-کچرے میں مغربی بنگال کا 9.8 فیصد، دہلی 9.5 فیصد، کرناٹک 8.9 فیصد، گجرات 8.8 فیصد اور مدھیہ پردیش کی 7.6 فیصد ہے۔اسٹڈی کے مطابق، ای-کچرے کی عالمی مقدار 2016 میں 4.47 کروڑ ٹن سے بڑھ‌کر 2021 تک 5.52 کروڑ ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔  2016 میں پیدا ہوئے کل ای-کچرے کا صرف 20 فیصد (89 لاکھ ٹن) ہی مکمل طور پر جمع اور ری سائیکل کیا گیا ہے، جبکہ باقی ای-کچرے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق، ہندوستان میں قریب 20 لاکھ ٹن سالانہ ای-کچرا پیدا ہوتا ہے اور کل 438085 ٹن کچرا سالانہ ری سائیکل کیا جاتا ہے۔  ای-کچرے میں عام طور پر پھینکے ہوئے کمپیوٹر مانیٹر، مدربورڈ، کیتھوڈ رے ٹیوب (سی آر ٹی)، پرنٹیڈ سرکٹ بورڈ (پی سی بی)، موبائل فون اور چارجر، کام پیکٹ ڈسک، ہیڈ فون کے ساتھ ایل سی ڈی (لکویڈ کرسٹل ڈسپلے) یا پلازما ٹی وی، ایئر کنڈیشنر، ریفریجریٹر شامل ہیں۔اسٹڈی میں کہا گیا ہے، ‘غیر محفوظ ای-کچرے کو ری سائیکل کے دوران پیدا ہونے والی  کیمیا / آلودگی  کے رابطہ میں آنے سے اعصابی نظام، نظام خون، گردہ اور دماغی خرابی، سانس سے  متعلق خرابی، جلد کی خرابی، گلے میں سوجن، پھیپھڑوں کا کینسر، دل، جگر کو نقصان پہنچتا ہے۔

اس اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا شدہ ای-کچرے کی مقدار 3.15 فیصد کی شرح سے بڑھنے کی امید ہے، جس کی وجہ سے سال 2018 کا اندازہ 47.55 میٹرک ٹن لگایا جا رہا ہے۔  ای-کچرے میں موجود تمام کچّے مال کا 2016 میں کل قیمت تقریباً 61.05 ارب ڈالر ہے، جو دنیا کے زیادہ تر ممالک کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔اسی خبر کے مطابق، کرناٹک جیسی ریاستوں میں 57 اکائیاں ہیں جن کی صلاحیت تقریباً 44،620 ٹن ہے، وہیں مہاراشٹر میں 32 اکائیاں ہیں جو 47810 ٹن ای-کچرا پروسیسنگ کر سکتی ہیں۔اتر پردیش میں 86130 ٹن کی پروسسنگ کے لئے 22 اکائیاں ہیں اور ہریانہ میں 49981 ٹن کے لئے 16اکائیاں ہیں۔  تمل ناڈو میں 52427 میٹرک ٹن ہر سال پروسسنگ کرنے کے لئے 14 اکائیاں ہیں۔

گجرات میں 12اکائیاں ہیں جن کی پروسسنگ کرنے کی صلاحیت 37262 ہیں جبکہ راجستھان میں 10اکائیاں جو 68670 میٹرک ٹن ہر سال پروسسنگ کر سکتی ہیں۔  وہیں تلنگانہ میں 11800 میٹرک ٹن کے ای-کچرا پروسسنگ کرنے کے لئے 4اکائیاں ہیں۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے کل ای-کچرے کا صرف 5 فیصد ہی، خراب بنیادی ڈھانچے اور قانون کی وجہ سے ری سائیکل ہو پاتا ہے جس کا سیدھا اثر ماحول میں غیر تغیر پذیر نقصان اور صنعت میں کام کرنے والے لوگوں کی صحت پر پڑتا ہے۔  ای-کچرے کا 95 فیصدان آرگنائزڈ سیکٹر اور اس بازار میں اسکریپ ڈیلروں کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے جو اس کو ری سائیکل کرنے کے بجائے مصنوعات کو توڑ‌کر پھینک دیتے ہیں۔

ہندوستان میں موجودہ وقت میں ای-کچرے کی پیداوارکی صلاحیت پروسسنگ  کی صلاحیت سے 4.56 گنا زیادہ ہے۔  زیادہ آبادی بھی، بڑھتے ہوئے ای-کچرے کی وجہ ہے۔اس مطالعے میں کہا گیا، جیسےجیسے ہندوستان کے لوگ امیر بن جاتے ہیں اور زیادہ الیکٹرانک سامان اور سامان خرچ کرتے ہیں۔  کل ای-کچرا میں کمپیوٹرکے ساز و سامان تقریباً 70فیصد، مواصلاتی ساز و سامان 12فیصد، بجلی کے ساز و سامان 8 فیصد، طبی ساز و سامان 7 فیصداور باقی گھریلو سامان 4فیصد ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)