فکر و نظر

جینت سنہا بی جے پی کے  فرقہ وارانہ نظریہ کا ’پڑھا-لکھا ‘ چہرہ ہیں

مرکزی وزیر جیسے اور بھی کئی ہیں جو ایک امیر اور تعلیم یافتہ بیک گراؤنڈ سے آتے ہیں، جو دکھتے لبرل  ہیں لیکن جن کے من  میں فرقہ وارانہ سڑاند  بھری ہوتی ہے۔

مرکزی وزیر جینت سنہا (فوٹو : فیس بک / السٹریشن : دی وائر)

مرکزی وزیر جینت سنہا (فوٹو : فیس بک / السٹریشن : دی وائر)

مرکزی وزیر جینت سنہا کے لنچنگ معاملے کے 8 ملزمین سے ملنے سے زیادہ گھناؤنا ان کا اس تنازعے پر رد عمل تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف ‘ قانونی پروسیس  کی عزّت ‘ کر رہے تھے۔ انہوں نے عدالتی عمل میں اعتماد ہونے کو لےکر بھی کچھ کہا لیکن اس سوال کو پوری طرح نظرانداز کر دیا کہ انہوں نے ایسے لوگوں، جو گزشتہ  سال ہوئے ایک قتل کے مجرم  پائے گئے ہیں، کا اس طرح استقبال کرنے کی سوچی ہی کیوں۔

انہوں نے اس کے بعد کچھ ٹوئٹس کئے، اگر وہ چاہتے تو  یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ معاملے کو ‘ غلط طرح سے ‘ دیکھا گیا اور صرف تصویر سے اصلی بات کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا-لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مختصر اً کہیں تو انہوں نے اس کو پوری بے شرمی سے منظور کیا اور اپنے کئے کو منصفانہ ٹھہراتے ہوئے ایسے جتایا کہ عدالتی عمل کے ساتھ ہی کچھ غلط ہوا ہے۔ ان کی بات ‘ میں واضح طور پر تشدد کے ہر کام  کی مذمت کرتا ہوں ‘ سے شروع ہوکر ‘ میں بار بار فاسٹ ٹریک کورٹ کے سبھی کو عمر قید کی سزا دینے کے فیصلے پر اپنا شک ظاہر کر چکا ہوں ‘ پر ختم ہوئی۔

وہ اس کو  یہیں چھوڑ سکتے تھے لیکن انہوں نے ان ملزمین کو، جب وہ ضمانت پر نکل‌کر ان سے ملنے پہنچے، پھول مالا پہنانا چنا -صاف ہے کہ ان جیسے سمجھ دار کو اس بات کا علم تو رہا ہوگا کہ اس سے عوام میں کیا پیغام جائے‌گا۔ لبرلس اس بات پر بھلےہی کتنی بھی مخالفت درج کرا لیں لیکن کیا اس سے فرق پڑتا ہے؟ سنہا کو تو بالکل نہیں پڑتا۔ سنہا ایک سمجھدار  آدمی ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ ان کے جیسا بایوڈاٹا زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کے لئے چاہتے ہیں۔آئی آئی ٹی، یونیورسٹی آف پینسلوینیا، ہارورڈ، پھر میکنسے(McKinsey) اورا ومدیار نیٹ ورک جیسی جگہ پر نوکری اور اس کے بعد سیدھے مرکزی وزیر کے طور پر سیاست میں آنا۔

آسان لفظوں  میں کہیں تو وہ اووراچیور(Overachiever) ہیں۔ ویسے بھی ان کی امیج صاف ہی رہی ہے۔ انگریزی بولنے والا رہنما جس پر اس کے ماضی کا کوئی داغ نہیں ہے، جو ان کو ایسے ہندتواوادیوں کے درمیان بالکل الگ رکھتا ہے جو اپنی نفرت بھری تقریروں کے ذریعے اب سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ  4 سالوں میں انہوں نے کوئی فرقہ وارانہ بیان نہیں دیا، کسی بھی طرح کے تنازعے سے دور رہتے ہوئے اپنے کاموں میں لگے رہے۔

جو لوگ کسی گری راج سنگھ یا کسی آدتیہ ناتھ کو لےکر فکرمند ہو جاتے ہیں، سنہا آپ  کے اور ہمارے جیسے ہی آدمی ہیں، جو بی جے پی میں ہیں اور اس کے شہری چہرے کی پہچان بنے ہیں۔ لیکن پھر بھی، جب ان کی ہندتواوادی کٹرپن سامنے آیا تو یہ ان سنگیت سوم کی ٹکر  کا تھا، جو فرج میں گائے کا گوشت ہونے کے شک میں پیٹ-پیٹ‌کر قتل کر دئے گئے محمد  اخلاق کی فیملی کو جیل بھیج دینا چاہتے تھے۔ کیا سنہا بھی مانگ کریں‌گے کہ انصاری کی  فیملی پر معاملہ درج کر ان کو جیل بھیج دیا جائے؟ یہی ان کا اگلا قدم ہو سکتا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سنہا نے اپنے سیاسی باس کے ذریعے پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری ثابت کرنے کے دباؤ کی وجہ سے  ایسا کیا ہے۔ قیادت چاہتی ہے کہ جینت نہ صرف وہ کریں جو باقی کر رہے ہیں بلکہ اس سے ان کے والد یشونت سنہا، جو گزشتہ  کافی وقت سے مودی حکومت پر حملے کر رہے ہیں، کو نیچا بھی دکھایا جا سکے۔ بتایا جا رہا ہے کہ باپ بیٹے کے درمیان بیتے کچھ وقت سے ہی کھٹاس آئی ہے اور جینت کے ایسا کرنے سے یہ دراڑ  اور بڑھے‌گی۔ خود جینت کو اندازہ بھی نہیں ہے کہ ایک بار ایسا شروع کرنے کے بعد ان کے لئے اس ‘ سنگھی ‘ امیج سے نکل پانا آسان نہیں ہوگا۔

(فوٹو : دی وائر / پی ٹی آئی)

(فوٹو : دی وائر / پی ٹی آئی)

لیکن اس طرح کی صفائی دینا جینت کو ان کے کئے سے بری کرنے جیسا ہے۔ جینت ایک بالغ ہیں اور اپنے کریئر میں انہوں نے تمام طرح کے دباؤ جھیلے ہوں‌گے۔ کنسلٹینسی یا کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اکثر ہی ایسی حالات سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ اس سے نکلنے کا راستہ بنا لیتے ہیں تو کچھ اس کے آگے جھک جاتے ہیں لیکن اخلاقیات کے راستے چلنے والے پھر بھی اپنے لئے ایک حد طے کر لیتے ہیں۔

ایسی حد تھی۔جینت چاہتے تو نہ کہہ سکتے تھے، یا کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈ سکتے تھے، جس سے سالوں سے بنائی گئی ان کی امیج کو کم نقصان پہنچتا۔ لیکن انہوں نے نہ صرف پورےجوش سے ان کو سونپا گیا کام پورا کیا  بلکہ اس کے بارے میں بات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ واقعہ کے ویڈیو میں وہ جھجکتے نہیں دکھ رہے۔وہ پورے جوش وخروش سے ایسا کرتے نظر آ  رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب جب انتخاب بس آنے کو ہی ہیں، ووٹروں کے پولرائزیشن کے ذریعے ہندو ووٹ بینک تیار کیا جا سکتا ہے۔ وہ وسیع طور پر ہی بھلے سنگھ پریوار کا حصہ نہ رہے ہوں  لیکن ان کو وہاں کا پیغام مل چکا ہے۔

لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ ان کو  اپنا ‘ لبرل ‘ دکھنے والا چولا اتار‌کر اپنا ‘ بھگوا رنگ ‘ دکھانے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ کیا ان کو نہیں معلوم تھا کہ اس سے ہنگامہ کھڑا ہوگا؟ یا پھر وہ مودی یا سنگھ کے ساتھ جڑے رہ‌کر ملنے والے دور رس سیاسی فائدہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟

گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارے گئے علیم  الدین انصاری کے قتل کے  آٹھ ملزمین کو پچھلے ہفتے ضمانت ملی تھی۔ گزشتہ 4 جولائی کو ان کے جیل سے نکلنے پر مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان جینت سنہا نے ان کا استقبال کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارے گئے علیم  الدین انصاری کے قتل کے  آٹھ ملزمین کو پچھلے ہفتے ضمانت ملی تھی۔ گزشتہ 4 جولائی کو ان کے جیل سے نکلنے پر مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان جینت سنہا نے ان کا استقبال کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

یہ بھی پڑھیں جینت سنہا کا ماب لنچنگ کے مجرموں  کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟

اگر گزشتہ  سالوں میں جینت نے کوئی بےتکا یا فرقہ وارانہ بیان نہیں دیا، تو انہوں نے کسی طرح کی لبرل  سوچ بھی سامنے نہیں رکھی ہے۔ صرف ان کا امیر بیک گراؤنڈ ، ان کی تعلیم، عالمی تجربہ اور کاسموپالٹن لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کی بنیاد پر ایسا سوچ لیا گیا تھا کہ وہ ‘ الگ ‘ ہیں، کہ وہ اندر ہی اندر اپنے آس پاس ہو رہے پر شرمندہ ہوتے ہوں‌گے، لیکن سیاسی یا کریئر کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے  ہوئے ہیں۔ یہ ایک بزدلانہ بات ہے لیکن عملی بھی ہے اور وہ لوگ جو روزمرہ کی زندگی میں کئی طرح کے سمجھوتے کرتے ہیں، اس کو سمجھ سکتے ہیں۔

لیکن کٹرپن پھیلانے والے طرح طرح کے ہوتے ہیں، وہ الگ الگ طبقوں، پس منظر سے آتے ہیں۔فرقہ پرستی پھیلانے والے ان پڑھ بھی ملیں‌گے، اور بےحد پڑھے لکھے، مہذب  بھی۔ وہ بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے بھی آتے ہیں، کسی چھوٹے شہر سے بھی۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی سوچ ظاہر کرنے اور اس کی تشہیر کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے اور کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل میں ڈھیر سارا زہر لےکر خاموش رہتے ہیں۔ اکثر ان کی خاکساری اور طورطریقوں کے مکھوٹے  کے پیچھے چھپی فرقہ پرستی اور تعصبات کا ان کے قریبیوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔

ایسے ‘ ڈیزائنر ‘ کٹر لوگ ملک کی کسی دھول بھری سڑک پر نہیں بلکہ کسی بڑے شہر کے سجے ڈرائنگ روم میں ہو رہی کاک ٹیل پارٹیوں میں ملتے ہیں۔ ایسے میں سنہا اکیلے نہیں ہیں۔ان کے جیسے کئی اور ہیں، پچھلے کچھ وقت سے کچھ نے تو اپنے ضمیر کی آواز کو کہنا شروع کر دیا ہے، کچھ ابھی انتظار میں ہی ہیں۔ لیکن اقلیتوں سے نفرت اور ہندوتوا کو سر آنکھوں پر رکھنے میں یہ سب ساتھ ہیں۔

جینت ایک تعلیم یافتہ اور امیر بیک گراؤنڈ سے ہیں لیکن اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی  کہ اس سے انہوں نے  کسی طرح کی لبرل  سوچ سیکھی۔ آپ اپنے تجربات سے وہی سیکھتے ہیں جو آپ سیکھنا چاہتے ہیں اور اکثر یہ ہمارے اندرونی تعصبات کے مطابق ہوتا ہے۔ اور پھر زندگی میں آگے بڑھتے ہوئے یہی سوچ اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ بدلتے نہیں ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

جینت سنہا کی یہ صورت  سامنے آنا چونکانے والا بھلےہی لگتا ہے لیکن یہ صرف ‘ اوپری ‘ ہدایت ماننے اور اپنی جگہ بچائے رکھنے کی قواعد نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے اپنے اصل خیالات کو ظاہر کیا ہے۔ یہ کسی ہدایت کے مطابق اٹھایا ہوا قدم نہیں ہے بلکہ اپنی مرضی سے اپنے فطری پن میں لوٹنے جیسا ہے۔ جینت سنہا کی ‘ گھر واپسی ‘ ہوئی ہے۔