خبریں

سپریم کورٹ نے این آر سی کوآرڈینٹر کو لگائی پھٹکار،کہا؛ آپ کو جیل کیوں نہ بھیجا جائے؟

کورٹ نے این آر سی ، آسام کے کو آرڈینٹر  پرتیک ہجیلا کو کہا کہ آپ کا کام صرف این آر سی بنانا تھا نہ کہ پریس میں جانا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہجیلا کے بیان کا از خود نوٹس لے کر شنوائی شروع ہوئی ہے۔

گواہاٹی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کرتے ہوئے افسر/ فوٹو: پی ٹی آئی

گواہاٹی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کرتے ہوئے افسر/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: این آر سی کے آسام کو آرڈینٹر پرتیک ہجیلا کو سپریم کورٹ نے پھٹکار لگائی ہے۔ میڈیا میں آئے پرتیک ہجیلا کے بیان پر سپریم کورٹ نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے کہ تازہ ڈاکیومنٹ دیں۔ آپ نے یہ کیسے کہا کہ کافی موقعے دیں گے۔ آپ کا کام رجسٹر تیار کرنا ہے نہ کہ میڈیا کو بریف کرنا ۔ ہجیلا کے اخبار میں آئے انٹرویو کو لے کر سپریم کورٹ نے ناراضگی جتائی ہے۔

سپریم کورٹ نے ناراضگی جتاتے ہوئے کہا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ رجسٹر میں نام درج کروانے کے لیے فریش ڈاکیومنٹ دینے ہوں گے۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق؛ سپریم کورٹ نے ہجیلا سے پوچھا کہ  آپ کو عدالت کی توہین  کرنے کے لیے جیل کیوں نہ بھیجا جائے؟ کورٹ نے ہجیلا اور رجسٹرار جنرل کو  کہا کہ مستقبل میں ہوشیار رہیں اور کورٹ کے آرڈر کے مطابق کام کریں۔

سپریم کورٹ نے ہجیلا کو کہا کہ آپ کا کام صرف این آر سی بنانا تھا نہ کے پریس میں جانا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہجیلا کے بیان کا از خود نوٹس لیتے ہوئے شنوائی شروع ہوئی ہے۔ کورٹ نے کہا کہ جو اسٹیٹمنٹ ہجیلا نے دیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی فائنل این آر سی پورا ہونا ہے۔ سپریم کورٹ نے ہجیلا اور رجسٹرار جنرل کو کہا کہ مستقبل میں ہوشیار رہیں اور کورٹ کے آرڈر کے مطابق کام کریں۔

این آر سی فائنل کو لے کر کام کریں۔ سپریم کورٹ نے ہجیلا اور رجسٹرار جنرل کو کہا کہ ہم آپ کو جیل بھیج سکتے تھے۔ لیکن ہم نے خود کو روکا ہے۔ ہجیلا نے معافی مانگی اور کہا کہ آر جی آئی کی صلاح کے بعد وہ میڈیا کے پاس گئے تھے۔ کورٹ نے کہا کہ اس معاملے کی شنوائی 16 اگست کو ہونی ہے اور مرکزی حکومت اس کے لیے ایس او پی داخل کرے گی۔ لیکن جو کاغذات اور دوسرے پروسیس ابھی سپریم کورٹ کو طے کرنی ہے اس کے بارے میں ہجیلا نے پہلے ہی انٹرویو دے دیے جو توہین عدالت کے لیے مناسب مقدمہ  ہے۔ جسٹس رنجن گگوئی نے ہجیلا کا اخبار میں انٹر ویو بھی دکھایا تھا۔