حقوق انسانی

آسام میں این آر سی سے باہر رہے 10فیصدی لوگوں کی دوبارہ تصدیق ہو: سپریم کورٹ

عدالت نے این آر سی کے ڈرافٹ پر دعویٰ اور اعتراض کی آخری تاریخ (30 اگست ) کو ملتوی کر دیا ہے۔ کورٹ نے دعوٰی و اعتراضات کے متعلق مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے Standard Operating Procedure ( ایس او پی ) کے تضاد کو لیکر بھی سوال کیا ہے۔

گواہاٹی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کرتے ہوئے افسر/ فوٹو: پی ٹی آئی

گواہاٹی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کرتے ہوئے افسر/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے منگل کو حال ہی میں آسام میں شائع نیشنل سیٹیزن رجسٹر (این آر سی) کے ڈرافٹ میں شامل نہیں ہونے والے  لوگوں میں سے دس فیصدی لوگوں کے دوبارہ جانچ کا حکم دیا ہے۔جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس فالی ایس نریمن کی ایک بنچ نے کہا کہ ؛ ڈرافٹ سے باہر رہ گئے لوگوں کی دوبارہ جانچ کو ممکن بنانے کے لئے ‘سیمپل سروے’ اور اس بارے میں پروگرام بعد میں طے کیا جائے گا۔عدالت نے این آر سی کے ڈرافٹ پر دعویٰ اور اعتراض کی آخری تاریخ (30 اگست ) کو ملتوی کر دیا ہے۔ کورٹ نے دعویٰ واعتراضات کے متعلق مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے Standard Operating Procedure ( ایس او پی ) کے تضاد کو لیکر بھی سوال کیا ہے۔

بنچ نے ڈرافٹ میں نام شامل کرانے کے لئے میراث کے کاغذات (Legacy Document ) میں تبدیلی کے مرکزی حکومت کی تجویز کے سلسلے میں خدشہ ظاہر کیا۔واضح ہو کہ این آر سی کا فائنل ڈرافٹ 30 جولائی کو شائع کیا گیا تھا جس میں29.3 کڑور لوگوں میں سے2.89 کروڑ لوگوں کا نام شامل کیا گیا تھا۔ اس ڈرافٹ میں 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے نام شامل نہیں تھے۔ اس میں اس 37,59,630 لوگوں کے نام مسترد کر دئے گئے تھے، جبکہ 2,48,077 لوگوں کے نام ہولڈ پر رکھ دیے گئے تھے۔

عدالت نے 31 جولائی کو واضح کیا تھا کہ جن لوگوں کا نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل نہیں ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ صرف ڈرافٹ لسٹ ہے۔کورٹ نے لسٹ شائع ہونے کے بعد حالات سے نپٹنے کے لئے اور دعوے اور اعتراض کے سلسلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے مرکزی حکومت سے ایک فارمولا اور ایس او پی بنانے کو کہا تھا۔

اس سے قبل بنچ نے آسام کے این آر سی کوآرڈینیٹر کو حکم دیا تھا کہ وہ ریاست میں ڈرافٹ میں شامل نہیں ہونے والی  آبادی کا ضلع وار ڈیٹا بیس پیش کرے۔مرکزی حکومت نے 14 اگست کو عدالت سے کہا تھا کہ این آر سی میں دعوے اور اعتراض کرنے والے 40 لاکھ لوگوں کا بایومیٹرک ڈیٹا جمع کر کے انکی الگ آئیڈنٹیٹی رکھنے کا انتظام کیا جائے گا۔دریں اثنا عدالت کے اس فیصلے کو لے کر متاثرین کے لئے کام کرنے والے وکلاء اور سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ کورٹ کے آرڈر سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)